یہ سن 1130 ہے۔ موجودہ عراق کے شہر تکریت (Tikrit) کی جامع مسجد، ایک شیخ علاقے کے گورنر نجم الدین ایوب کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ دونوں کے درمیان انتظامی اور سیاسی معاملات پر گفتگو چل ہی رہی ہے کہ اچانک۔ پردے کے پیچھے سے ایک لڑکی کی معصومانہ آواز آتی ہے، ’’شیخ! آپ نے حاضری کا حکم دیا تھا۔‘‘

شیخ گورنر کی طرف معذرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور قطع کلامی کی معذرت کے بعد لڑکی سے شکوہ کرتے ہیں: ’’اللہ کی بندی! تم نے پھر رشتہ ٹھکرا دیا؟ اس بار تو مجھے یقین تھا کہ یہ رشتہ ضرور پسند آئے گا‘‘۔ پردے کے پیچھے سے جواب ملتا ہے: ’’شیخ! لڑکا خوبصورت تھا، مالدار بھی، لیکن میرے لائق نہیں تھا۔‘‘

"بیٹا! آخر تم چاہتی کیا ہو؟" شیخ زور دے کر پوچھتے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی گورنر کی توجہ ان دونوں کی گفتگو کی طرف تھی۔ لڑکی کی آواز میں کچھ ایسی بات تھی کہ وہ گورنر کی توجہ کھینچ رہی تھی۔ اُسے کچھ دن پہلے اپنے بھائی اسد الدین کے ساتھ ہونے والی بات چیت بھی یاد آ رہی تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ اس لڑکی کو بھی وہی امتحان درپیش ہے، جس کا سامنا وہ خود کر رہا ہے۔

بھائی ڈیڑھ دو سال سے گورنر کو شادی کے لیے کہہ رہا تھا، کئی رشتے بھی لایا، مگر نجم الدین کو کوئی رشتہ پسند ہی نہیں آیا۔ یہاں تک کہ سلجوقی خاندان کے رشتے بھی اُس کے معیار پر پورے نہیں اترے۔ آخری بار جب دونوں بھائیوں کی بات ہوئی تھی تو نجم الدین نے صاف صاف کہہ دیا تھا: ’’مجھے ایسی لڑکی چاہیے جو نیک ہو، اُس سے میرا بیٹا پیدا ہو، جس کی وہ بہترین تربیت کرے، وہ سپہ سالار بنے اور بیت المقدس کو آزاد کرائے۔ اور جب میں جنت میں داخل ہوں تو اس نے میرا ہاتھ تھام رکھا ہو۔‘‘

مایوس بھائی کہتا رہ گیا کہ ایسی لڑکی تجھے کہاں سے ملے گی؟ مگر نجم الدین کو یقین تھا، ملے گی اور ضرور ملے گی۔ ابھی وہ یہ باتیں سوچ ہی رہا تھا کہ اُس لڑکی کی آواز پھر سنائی دی: ’’شیخ! میں ایسا شوہر چاہتی ہوں جو نیک ہو۔ اس سے میرا بیٹا پیدا ہو، وہ ایسا بہادر سالار بنے جو بیت المقدس کو آزاد کرائے اور جب میں جنت میں داخل ہوں تو اس نے میرا ہاتھ تھام رکھا ہو۔‘‘

لڑکی کی یہ بات سنتے ہی گورنر کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا، وہ اچھل پڑا۔ اسے لگا یہ لڑکی خدا نے اُسی کے لیے بھیجی ہے، اُن کا جوڑا تو آسمان پر بنا دیا گیا ہے۔ اُس نے فوراً شیخ سے کہا: ’’شیخ! میں کروں گا اس لڑکی سے شادی۔‘‘

شیخ نے کہا: ’’نجم الدین! یہ بہت غریب لڑکی ہے۔‘‘

’’مجھے دولت نہیں، ایمان چاہیے۔‘‘ نجم الدین نے جواب دیا۔

پھر تاریخ نے دیکھا کہ اس جوڑے کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا، جو واقعی ایک عظیم سالار بنا، بیت المقدس بھی فتح کیا اور سلطانوں کا سلطان کہلایا!

وہ بنا صلاح الدین یوسف بن ایوب، جسے دنیا آج جانتی ہے صلاح الدین ایوبی کے نام سے!

صلاح الدین کا خاندان

سن 1138۔ تکریت کا علاقہ ویسے تو سلجوق خاندان کی حکومت میں ہے، لیکن زنگی خاندان کا اثر بڑھ رہا ہے۔

ایک دن زنگی خاندان کا ایک لشکر جنگ ہارنے کے بعد شہر کنارے دریائے دجلہ پر پہنچا۔ صلاح الدین ایوبی کے والد نجم الدین نے لشکر کو فوری دریا پار کروانے میں مدد دی۔ یہ بات سلجوق حاکم کو بہت بُری لگی۔

ابھی یہ ناراضی چل ہی رہی تھی کہ سلطان کے چچا اسد الدین کا ایک مقامی کمانڈر جھگڑا ہو گیا۔ ایک عورت کی شکایت کی وجہ سے دونوں کا جھگڑا ہوا، اور اسد الدین نے اسے مار ڈالا۔ اب بات حد سے زیادہ بگڑ گئی تھی، اتنی کہ سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ دونوں بھائیوں کو تکریت سے نکل جانے کا حکم مل گیا!

نجم الدین یہ خبر لیے جب دکھی دل کے ساتھ گھر پہنچا، تو گھر میں ایک خوش خبری منتظر تھی۔ اُن کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی تھی۔ نجم الدین نے بیوی کو بیٹے کی مبارک باد تو دی لیکن ساتھ ہی خبر سنائی کہ اِس شہر سے ہمارا دانہ پانی اٹھ چکا ہے۔

گھر کی تمام خوشیاں بھک سے اڑ گئیں، شہر اُسی دن چھوڑ دیا گیا۔ کئی لوگوں نے بچے کو منحوس سمجھا، لیکن کسی کے سوچنے سے کیا ہوتا ہے؟ تاریخ کا دھارا تو اور ہی سمت بہہ رہا تھا، بلکہ تمام دھارے اُس بچے کو ایک عظیم مقام تک پہنچانے کے لیے بہہ رہے تھے۔

یہ بچہ کوئی اور نہیں یوسف بن نجم الدین ایوب تھا۔ اسلام کے دشمنوں کا سب سے بڑا دشمن، دنیا بھر کے مسلمانوں کا ہیرو، مستقبل کا بہادر اور قابلِ فخر سپہ سالار۔

جس شہر تکریت میں اسے ایک دن رہنے کی اجازت بھی نہیں ملی، ایک دن وہ شہر بھی اس کی حکومت میں شامل ہوا بلکہ 20 لاکھ مربع کلومیٹرز کا علاقہ اس کی حکومت کا حصہ بنا لیکن یہاں تک پہنچنے کے لیے اسے بہت طویل جدوجہد کرنا پڑی۔ اس کا آغاز ہوتا ہے عراق کے شہر موصل سے۔

نجم الدین ایوب کا خاندان تکریت سے ہجرت کر کے اس شہر پہنچا، جہاں چلتی تھی زنگی سلطان عماد الدین کی۔ اب وقت آ گیا تھا کہ وہ نجم الدین ایوب کے احسان کا بدلہ چکائے۔ عماد نے کھلے دل سے اس خاندان کا استقبال کیا۔ اور نجم الدین کو موجودہ لبنان کے شہر بعلبک (Baalbek) کا حاکم بنا دیا۔

یہ دور تھا صلیبی جنگوں کا، جب یورپ مسلم دنیا پر حملہ آور تھا۔ سن 1095 میں تو پورا یورپ ہی ایک ہو کر فلسطین پر ٹوٹ پڑا۔ اور کچھ سالوں کی زبردست لڑائی کے بعد جون 1099 میں بیت المقدس فتح بھی کر لیا۔

مسلمانوں کا قبلۂ اول اُن سے چھن گیا، اور اُن کا بہت خون بھی بہایا گیا لیکن جب مسلمانوں کو موقع ملا تو انہوں نے ایسا نہیں کیا، اُن کا ردِ عمل بالکل مختلف تھا۔ اس عظیم فتح کا ذکر آگے کریں گے، ابھی چلتے ہیں اُس زمانے میں مسلم دنیا کی حالتِ زار کی طرف۔

مسلم دنیا کی حالتِ زار

اُس زمانے میں یورپ تو مسلمانوں کے خلاف متحد تھا، لیکن مسلمانوں میں اتحاد نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ صلیبی مسلمانوں سے علاقے چھینتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ شام اور فلسطین کے علاقوں میں چار ریاستیں بنا لیں۔ پہلی Edessa کی ریاست، دوسری انطالیہ، تیسری طرابلس (Tarablus) اور چوتھی یروشلم۔

اب وہ مسلم دنیا کے دل میں ایک خنجر کی طرح گھسے ہوئے تھے۔ مسلم حکمرانوں کو آپس میں لڑنے سے فرصت ہوتی تو صلیبیوں سے لڑتے نا؟ ایک طرف بغداد میں خطبہ عباسیوں کا چلتا تھا، مگر اُن کا زور کہیں نہیں چلتا تھا۔

عظیم سلجوق سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی تھی، اس کے شہزادے آپس میں ہی لڑ مر کر ختم ہو رہے تھے۔ مصر میں فاطمیوں کا زوال شروع ہو چکا تھا۔

آپس کی یہی نا اتفاقی تھی کہ صلیبی بہت بڑی طاقت بن گئے، اتنی بڑی کہ وہ ایک کے بعد دوسری صلیبی جنگ کا اعلان کرتے گئے۔ یہاں اُن کو پہلی بار ٹکر دی عماد الدین زنگی نے۔ وہ سلجوق دور میں موصل کے حاکم تھے۔

جب سلجوق کو زوال آیا تو انہوں نے اپنی حکومت قائم کر لی اور پھر عماد اور ان کے بیٹے نور الدین زنگی نے صلیبیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ پہلی صلیبی جنگ میں بیت المقدس پر قبضہ تو ہو گیا لیکن اس کے بعد صلیبیوں کو خطرہ تھا نور الدین سے۔ انہی کے خلاف دوسری صلیبی جنگ کا اعلان کیا گیا۔

سن 1147 سے 1149 کے دوران جرمنی، فرانس، اٹلی اور یورپ کے کئی ملکوں کی فوجیں زنگیوں سے لڑی۔ کچھ چھوٹے موٹے شہر اور قلعے فتح بھی کیے، لیکن کوئی بڑی اور خاص کامیابی نہیں لے پائے۔ دمشق کا بھی کئی دن تک محاصرہ کیا، لیکن شہر میں داخل نہیں ہو سکے، ناکام ہوئے اور یہ شہر بھی نور الدین زنگی کو مل گیا۔

اس کامیابی کے بعد نور الدین نے یوسف کے والد نجم الدین ایوب کو دمشق کا حاکم بنا دیا۔ تب یوسف اپنی دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ تلوار، نیزے بازی اور گھڑ سواری سیکھ رہا تھا۔ باپ کے علاوہ جسے یوسف کی بہت پروا ہوتی تھی، وہ تھے چچا اسد الدین شیر کوہ۔ وہ نور الدین زنگی کی فوج میں کمانڈر تھے اور اچھی طرح جانتے تھے کہ بہادر سپاہی کیسے بنتا ہے؟ وہ منتظر تھے کہ اپنے بھتیجے کو میدانِ جنگ میں تلوار چلاتے اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور وہ وقت جلد ہی آ گیا!

ایوبی مصر میں

یہ وہ زمانہ تھا جب مصر میں فاطمی حکومت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ ایک طاقتور وزیر خود اپنی ہی حکومت کے خلاف بغاوت پر اتر آیا تھا۔ تب نور الدین زنگی نے اسد الدین کو حکم دیا کہ مصر جائیں اور بغاوت کا خاتمہ کریں۔

اب چچا کو بھتیجے کی جنگی صلاحیتیں آزمانے کا موقع مل گیا۔ انہوں نے یوسف کو ساتھ لیا اور فوج لیے مصر روانہ ہو گئے۔ یہاں یوسف نے بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ خود چچا کو بھی یقین نہ آیا۔ وہ تو چچا کو بھی مشورے دینے لگا، بالکل ایک تجربہ کار اور منجھے ہوئے جرنیل کی طرح۔ اور پھر دنیا نے دیکھا، چچا کہیں پیچھے رہ گیا اور بھتیجا بہت آگے نکل گیا۔ اب مصر میں کسی نام کا ڈنکا بج رہا تھا تو وہ یہی تھا: یوسف بن نجم الدین ایوب۔ بلکہ انہیں ایک نیا نام بھی ملا: الناصر یوسف یعنی فتح دینے والا یوسف۔

تب مصر کے فاطمی بادشاہ نے یوسف کو وزیر بنا دیا، شاید اس لیے کہ نوجوان لڑکا ہے، ناتجربہ کار ہے، اس سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا لیکن ستمبر 1171 میں فاطمی بادشاہ العاضد کا انتقال ہو گیا۔ فاطمی سلطنت کا آخری چراغ بجھ گیا اور پورے مصر پر عملاً یوسف کا راج ہو گیا۔

جی ہاں! یوسف اور مصر کا تعلق تو ہمیشہ سے رہا ہے، بہت پرانے زمانے سے۔ اور بارہویں صدی کے یوسف کو نام ملا، صلاح الدین ایوبی کا۔ خود کہتے تھے کہ جب اللہ نے مصر عطا کیا تو مجھے یقین ہو گیا کہ وہ مجھے فلسطین بھی عطا کرے گا۔

بدلتے ہوئے حالات

اُس زمانے میں حالات تیزی سے بدل رہے تھے اس لیے نور الدین زنگی نے صلاح الدین ایوبی کو واپس دمشق آنے کا حکم دیا لیکن کوئی بے وقوف ہی ہوتا، جو ایسا کرتا، صلاح الدین نے انکار کر دیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ نور الدین زنگی نے مصر پر چڑھائی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس سے پہلے کہ کچھ کرتا، تاریخ نے بالکل نیا موڑ لے لیا۔ نور الدین زنگی کا انتقال ہوگیا۔

وفات کے بعد اُن کے 12 سال کے بیٹے کو دمشق میں نیا سلطان بنایا گیا۔ اور وہی ہوا، جو ایسے موقع پر ہوتا ہے۔ وزیر اور امیر اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کی سازشیں کرنے لگے۔ ایک طرف یہ حالات اور دوسری طرف صلیبیوں کا خطرہ۔ حالات یہ ہو گئے کہ صلیبی لشکر حج پر جانے والے مسلمانوں کے قافلے بھی لوٹنے لگے۔

یہ کام کر رہا تھا صلیبیوں کا جنگجو سردار رینالڈ، (Raynald of Châtillon)۔ کسی مسلمان حکمران میں ہمت نہیں تھی کہ وہ اُسے روک سکے۔ یہاں ایک خاتون کے فیصلے نے تاریخ کا دھارا پلٹا۔ یہ تھیں نور الدین زنگی کی بیوہ، جو اپنی آنکھوں سے محلّاتی سازشیں دیکھ رہی تھیں۔ کُڑھتی رہتیں کہ اقتدار کے پجاریوں نے کس طرح اُن کے کم عمر بیٹے کو گھیر لیا ہے۔ اس لیے وہ صلاح الدین ایوبی کو ایک خط لکھتی ہیں اور اُن سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ دمشق پر قبضہ کریں۔

خط جیسے ہی ملتا ہے، صلاح الدین ایوبی فوراً فیصلہ کرتا ہے۔ اور پھر کوئی اُن کے سامنے ٹھیر نہیں پایا۔ اب صلاح الدین ایوبی مصر اور شام کے حکمران تھے۔ اور ان کی اب نظر تھی بیت المقدس پر۔

کون ہے جو صلیبیوں کو یہاں سے نکالے گا؟ جو مسلمانوں کو ان سے بچائے گا؟ کوئی ہے تو سامنے آئے، سب سے پہلے میں اسے اپنا بادشاہ مانوں گا۔

وہ وقت آئے گا جب میں نور الدین زنگی کا تیار کیا ہوا منبر مسجد اقصیٰ میں اپنے ہاتھوں سے رکھوں گا۔

بیت المقدس کی آزادی نور الدین زنگی کا نہیں، میرے ماں باپ کا بھی خواب ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت مجھے اس خواب کو پورا کرنے سے نہیں روک سکتی!

یہ صلاح الدین ایوبی کے الفاظ تھے، جو انہوں نے دمشق میں ایک اجتماع سے کہے۔ لیکن صلیبیوں کو ہرانا آسان نہیں تھا۔ اس کے لیے ایک بڑی، مضبوط اور متحد طاقت کی ضرورت تھی، اس لیے سلطان نے سب کو ایک جھنڈے تلے لانے کا کام شروع کر دیا۔

سن 1182 تک صرف مصر اور شام ہی نہیں، عراق اور یمن بھی ایوبی سلطنت کا حصہ بن چکے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک جنگ کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی بیمار پڑ گئے، اتنے شدید بیمار کہ بچنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا تب انہوں نے ایک نذر مانی کہ اگر شفا ہوئی تو اپنی پوری قوت صلیبیوں کے خلاف لگائیں گے، کبھی کسی مسلمان سے جنگ نہيں کریں گے اور اپنا تمام تر خزانہ بیت المقدس کی فتح کے لیے لگا دیں گے۔ اور ہاں! رینالڈ کو پکڑ کر اسے اپنے ہاتھ سے قتل کریں گے!

اُس زمانے میں سلطان صلاح الدین اور صلیبیوں کے درمیان امن کا چار سالہ معاہدہ تھا لیکن رینالڈ اس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کر رہا تھا۔ حاجیوں کو لوٹنے کی شکایات مسلسل بڑھ رہی تھیں۔ ایک جھوٹا، مکار اور دھوکے باز آدمی، اتنا ظالم کہ مسلمانوں کے قافلے لوٹتے ہوئے عورتوں اور بچوں پر بھی رحم نہ کھاتا۔ اور اب تو اُس کا حوصلہ اتنا بڑھ چکا تھا کہ مکہ اور مدینہ پر حملے کی باتیں کرنے لگا۔ بلکہ اپنے حمایتی سرداروں اور فوجی کمانڈروں کو بلایا اور حجاز پر چڑھائی کا ارادہ لے کر نکلا۔ اعلانیہ دعوے کرتا جاتا کہ مکہ فتح کرنے کے بعد خانہ کعبہ مسمار کر دوں گا۔ مدینہ کو بھی برباد کرنے کی باتیں کرتا۔ رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخیوں سے بھی گریز نہ کرتا۔

صلاح الدین ایوبی کا ضبط جواب دے چکا تھا۔ بیماری سے صحت یاب ہوا، قسم پوری کرنے کا موقع بھی ملا لیکن ایک عجیب رکاوٹ بیچ میں آ گئی۔ وہ رکاوٹ کیا تھی؟ اس بارے میں آگے چل کر بتائیں گے ابھی ہم ذرا سا پیچھے جائیں گے اور اس معرکے کی بات کریں گے جس میں سلطان کو شکست ہوئی۔

سلطان کی بڑی شکست

یہ 25 نومبر 1177 ہے۔ یروشلم بالڈوِن دی فورتھ کے قبضے میں ہے۔ اسے بالڈوِن دی leper بھی کہا جاتا ہے۔ جی ہاں! یہ بادشاہ کوڑھ کا مریض تھا، لیکن تھا بڑا بہادر اور ذہین۔

تو 1177 میں صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس آزاد کرانے کی پہلی کوشش کی۔ مسلمان فوجیں رام اللہ کے قریب پہنچیں، چھوٹی موٹی مزاحمت کا خاتمہ کیا لیکن آگے جانا مشکل ہو گیا۔ سب سے پہلے تو جانوروں کے لیے چارے کی ضرورت تھی، پھر راستہ بھی نا ہموار۔ جگہ جگہ اونچے ٹیلے تھے، جانور بھوکے اور نڈھال۔ تب فوج کے سپاہی چھوٹی چھوٹی ٹکڑوں میں بٹ گئے اور چارے کی تلاش کے لیے بکھر گئے۔

بالڈوِن کو اسی موقع کا تو انتظار تھا۔ اس نے 500 نائٹس اور ہزاروں پیادوں کے ساتھ صلاح الدین ایوبی کی فوج پر حملہ کر دیا۔ سلطان کو تو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا، بڑی کوشش کی، فوج کی ہمت بندھائی، انہیں مقابلے پر اُکسایا مگر کوئی اثر نہیں ہوا۔ جس کو موقع مل رہا تھا، وہ میدان چھوڑ کر بھاگ رہا تھا۔

سلطان حالات کو سمجھ گیا، اس لیے فرار ہی میں عافیت جانی۔ اس جنگ میں صلاح الدین ایوبی کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ شہادتیں اپنی جگہ، بہت سے سپاہی قیدی بھی بن گئے لیکن یہ صرف وقتی ہار تھی، سلطان ہار مارنے والا خاموشی سے بیٹھنے والا کہاں تھا؟

اس نے اپنا کام کر دکھانا تھا، بس کسی مناسب وقت پر اور تیاری کے ساتھ۔ اس لیے سلطان مصر پہنچا اور کام پر لگ گیا۔ کہتے ہیں اس ہار کے بعد سلطان نے بالڈوِن کا نام ہمیشہ عزت سے لیا یہاں تک کہ جب اس کی موت ہوئی تو سلطان نے کہا کہ بہادر لوگ ہمیشہ قابلِ احترام ہوتے ہیں۔ سلطان کو اپنی فوج منظم کرنے اور ضروری طاقت جمع کرنے میں دس سال لگ گئے۔

فیصلہ کُن جنگ

تین جولائی 1187 بمطابق 26 رمضان المبارک 584 ہجری۔ ایوبی اور صلیبی لشکر میں ایک زبردست جنگ ہوئی، جو تاریخ میں معرکہ حطّین کے نام سے مشہور ہے۔

یہاں ایوبی فوج نے صلیبیوں کے چھکے چھڑا دیے۔ اُن کے بھاگنے کے لیے کوئی راستہ نہ چھوڑا
یہاں تک کہ انہیں ہتھیار ڈالنا پڑے۔ ہزاروں مارے گئے، بڑی تعداد میں قیدی بنا لیے گئے
جن میں بالڈوِن کے بعد یروشلم کا حکمران بننے والا گی دی لوزینیاں بھی تھا اور رینالڈ بھی۔

ہم نے بتایا تھا نا کہ سلطان نے قسم کھائی تھی کہ اپنے ہاتھ سے رینالڈ کو قتل کرے گا۔ رینالڈ کو بھی پتہ تھا کہ اسے معافی نہیں ملے گی تو جب قیدیوں کو پیش کیا گیا تو سلطان نے گی دی لوزینیاں کو پانی پیش کیا۔ یہ روایت تھی کہ جب کوئی بادشاہ کسی کو اپنے ہاتھ سے پانی پیش کرے تو اس کا مطلب ہوتا ہے اس کی جان بخشی گئی۔

گی نے آدھا پانی پیا اور باقی رینالڈ کو تھما دیا، جس نے جلدی جلدی پانی پینا شروع کر دیا، اِس آس پر کہ اب اُس کی جان بخشی ہو جائے گی۔ اب ایک طرف سلطان کی قسم تھی، اور دوسری طرف روایت۔ صلاح الدین نے کچھ دیر غور کیا اور پھر گرج کر گی سے بولا: میں نے پانی تمھیں دیا تھا، اِسے نہیں۔ اٹھا اور رینالڈ کو گھسیٹتے ہوئے خیمے سے باہر لایا اور تلوار سے اپنی قسم پوری کر دی۔ باقی قیدیوں کو معاہدے کے بعد رہا کر دیا۔

اگلا قدم بیت المقدس

اب صلیبیوں کی کمر ٹوٹ چکی تھی۔ شمال میں بیروت سے لے کر جنوب میں غزہ تک، پورا فلسطین اب صلاح الدین ایوبی کے پاس تھا۔ موقع آ چکا تھا کہ بیت المقدس واپس لیا جائے۔ 88 سال سے اس شہر پر صلیبیوں کا قبضہ تھا اور پھر وہ دن آ گیا، سلطان پہنچ گیا اور شہر کا محاصرہ کر لیا۔

بیس ستمبر 1187 کو شہر کے گھیراؤ کا آغاز ہوا، شروع میں کچھ مزاحمت ہوئی لیکن کب تک ہوتی؟ بالآخر شہر والے مجبور ہو گئے۔ لیکن انہیں خوف تھا، ڈر تھا 88 سال پہلے جیسے انہوں نے یروشلم پر قبضے کے بعد خون ریزی کی تھی، کہیں صلاح الدین بھی جواب میں یہی تو نہيں کرے گا؟

تب شہرکے حاکم نے سلطان سے ملاقات کی اور کہا کہ اگر آپ نے امان نہیں دی تو ہم اپنے پاس موجود تمام مسلمان قیدیوں کو قتل کر دیں گے اور شہر کی تمام مقدس عمارتوں کو جلا کر راکھ کر دیں گے، مسجد اقصیٰ کو بھی۔

یہ دھمکی تھی یا بجھتا ہوا چراغ آخری بار پھڑک رہا تھا لیکن سلطان سمجھ گیا کہ اب گیم اُس کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے اس نے شہر کے ہر باسی کو اجازت دی کہ وہ فدیہ دے اور کسی بھی مسیحی علاقے کو چلا جائے۔

تاریخ دان جوناتھن فلپس کے مطابق:

یروشلم کی فتح پر صلاح الدین ایوبی نے ہر اس تصور کو غلط ثابت کیا، جو مغرب نے اُن کے بارے میں قائم کیا تھا۔

پھر دنیا نے دیکھا کہ ایسے ہزاروں عیسائی، جو فدیہ ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے، ان کا فدیہ خود صلاح الدین اور ان کے بھائی سیف الدین نے اپنے پاس سے دیا اور بہت سے تو بغیر تاوان کے ہی چھوڑ دیے گئے۔

جوناتھن فلپس ہی کی کتاب ’’دی لائف اینڈ دی لیجنڈ آف سلطان صلاح الدین‘‘ میں لکھا ہے:

یروشلم کے عیسائیوں کو کچھ ایسا دیکھنے کو نہیں ملا، جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔ محاصرے کے دوران شہر کی عورتوں نے بال کٹوا لیے تھے کہ وہ سلطان کی فوجوں کی نظروں میں نہ آئیں، لیکن سلطان نے عورتوں کے معاملے میں خاص رحم دلی دکھائی۔ حالانکہ وہ چاہتے تو انہیں غلام بنا سکتے تھے، فروخت کر سکتے تھے یا اپنے فوجیوں کے حوالے کر سکتے تھے۔ لیکن سلطان کا قول ہے کہ فتح کے بعد مخالفین کے دل جیتنے کا سب سے مؤثر ہتھیار ہے اچھا برتاؤ اور نرم دلی۔

مرے وطن تری جنت میں

کچھ دن ہی لگے، یروشلم خالی ہو گیا۔ دو اکتوبر 1187، جمعے کے دن سلطان صلاح الدین ایوبی شہر میں داخل ہوئے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے بعد کسی نے یہ عظیم کامیابی مسلمانوں کو دلائی تھی۔ پھر سلطان نور الدین زنگی کا بنوایا گیا منبر منگوایا، جو انہوں نے مسجد اقصیٰ کے لیے بنوایا تھا۔ یوں نور الدین زنگی کی خواہش بھی پوری ہو گئی۔ یہ منبر 782 سال تک مسجد اقصیٰ میں لگا رہا، یہاں تک کہ 1969 میں ایک شدت پسند یہودی نے مسجد کے اندر آگ لگا دی اور یہ تاریخی منبر جل کر راکھ ہو گیا۔

معاملات یہاں تک کیسے پہنچے؟ اور کس کس نے صلاح الدین ایوبی کا نام استعمال کیا، اس کا ذکر بعد میں فی الحال اس آزمائش کا ذکر جو بیت المقدس کی فتح کے بعد صلاح الدین ایوبی پر پڑی۔

صلاح الدین کی بڑی آزمائش

یروشلم چھن جانے کی خبر مغرب پر قیامت بن کر ٹوٹی۔ مسیحی پوپ اربن سوئم کا تو خبر سننے کے بعد کچھ ہی دنوں میں انتقال ہو گیا۔

اب یورپ میں مذہبی جنون کا ایک نیا دور شروع ہو گيا۔ ایک نئی صلیبی جنگ کا اعلان ہوا اور اس بار تو پورا یورپ ہی عالمِ اسلام پر ٹوٹ پڑا۔

فرانس کا بادشاہ فلپ دوم، انگلینڈ کا رچرڈ لائن ہارٹ اور جرمن بادشاہ فریڈرک باربروسا، یہ سب اس جنگ کی قیادت کر رہے تھے، بذاتِ خود! اسی لیے تو اس جنگ کو ’’بادشاہوں کی جنگ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

تو 1189 میں یہ لشکرِ جرار حملے کے لیے یورپ سے نکلا۔ قبرص اور شام کے کئی ساحلی علاقوں پر قبضہ کیا۔ عکہ اور یافا جیسے شہر بھی مسلمانوں سے چھین لیے۔ اب خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا۔

مسلسل جنگوں کی وجہ سے صلاح الدین کی فوجیں تھک چکی تھیں۔ اس لیے سلطان نے ایک نئی حکمت عملی اختیار کی، گوریلا وارفیئر، یعنی مارو اور بھاگو!

ان کارروائیوں کی وجہ سے دو سال لگا کر بھی صلیبی فوج بیت المقدس نہیں پہنچ پائی۔ پھر خدا کی کرنی دیکھیں، اس دوران جرمن بادشاہ فریڈرک باربروسا ایک دریا میں ڈوب کر مر گیا۔ جرمن صفوں میں تو صفِ ماتم بچھ گئی، اس کی زیادہ تر فوجیں جرمنی واپس چلی گئیں۔

اتنی لمبی لڑائی سے خود صلیبی بھی تنگ آچکے تھے۔ عرب علاقوں کی گرمی بلکہ سردی بھی اُن سے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ ایک بے دلی اور مایوسی تھی۔

بالآخر دو ستمبر 1192 کو انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ لائن ہارٹ اور صلاح الدین ایوبی کے درمیان معاہدہ ہو گیا۔ بیت المقدس پر مسلمانوں کا کنٹرول تسلیم کر لیا گیا، عیسائیوں کو زیارت کی اجازت دی گئی۔ اور پھر رچرڈ 9 اکتوبر 1192 کو بیت المقدس حاصل کرنے کی ناکام حسرت دل میں لیے واپس انگلینڈ روانہ ہو گیا۔

صرف پانچ مہینے بعد، گیارہ مارچ 1193 کو سلطان صلاح الدین ایوبی دمشق میں انتقال کر گئے، صرف پچپن سال کی عمر میں۔ انہیں شہر کی مرکزی مسجد کے قریب دفن کیا گیا۔

صلاح الدین ایوبی، آج بھی زندہ

صلاح الدین ایوبی اپنے جنگی کارناموں کی وجہ سے مشہور ضرور ہوں گے، لیکن ان کی عزت و عظمت کی اصل وجہ ہے ان کی رحم دلی، انکساری اور سخاوت۔ وہ جو سلطنت چھوڑ گئے وہ مصر اور فلسطین سے یمن، حجاز، شام اور عراق تک پھیلی ہوئی تھی، بیس لاکھ مربع کلومیٹرز پر۔ لیکن صلاح الدین کے انتقال کے بعد یہ حکومت زیادہ عرصے چل نہیں پائی۔

ساٹھ سال بھی نہیں گزرے کہ اِس کا خاتمہ ہو گیا لیکن صلاح الدین کا فتح کیا گيا بیت المقدس اگلے تقریباً سات سو سالوں تک مسلمانوں کے پاس ہی رہا۔ یہاں تک کہ گیارہ دسمبر 1917 آ گیا۔

پہلی جنگِ عظیم کے دوران برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ جنرل ایڈمنڈ ایلنبی (Edmund Allenby) یافا گیٹ سے یروشلم میں داخل ہوا اور ترکوں کے چار سو سالہ دور کا خاتمہ کر دیا۔ سلطان کا ایک شہر تو دشمن کے پاس چلا گیا اور زیادہ وقت نہیں گزرا، دوسرا شہر بھی گیا۔

جولائی 1920 میں فرانسیسی جرنیل ہینری گوراد (Henri Gouraud) نے دمشق فتح کیا۔ کامیابی کے بعد سیدھا صلاح الدین ایوبی کے مقبرے پر پہنچا۔ کہا جاتا ہے اس نے صلاح الدین کی قبر پر لات مارتے ہوئے کہا:

اٹھ صلاح الدین! ہم واپس آ گئے ہیں! میری موجودگی ثابت کرتی ہے کہ ہلال پر صلیب کی فتح ہوئی ہے!

یعنی سات سو سال بعد بھی صلاح الدین دشمن کے ذہن پر سوار تھا۔

پھر ‏1948 میں فلسطین میں ایک یہودی ریاست قائم کر دی گئی اور پون صدی گزرنے کے بعد بھی بیت المقدس کسی ایوبی کی راہ دیکھ رہا ہے۔

وہ کہ جس کی وفات کو صدیاں گزر گئی ہیں لیکن وہ آج بھی زندہ ہے۔ مسلمانوں کی امیدوں میں، اُن کی دعاؤں میں، اُن کی منتظر نگاہوں میں۔ اُن کے ذہنوں میں صلاح الدین ایوبی کا ایک مقام ہے، ایسا مقام جو کوئی نہیں چھین سکتا۔

آج بھی جب دنیا بھر میں نماز جمعہ کے بعد ہاتھ اٹھتے ہیں، فلسطین کی آزادی کی دعا مانگی جاتی ہے تو اکثر یہی کہا جاتا ہے کہ یا اللہ! کوئی صلاح الدین ایوبی پیدا کر!

اسے دیکھتے ہوئے کئی موقع پرستوں نے خود کو ’’وقت کا صلاح الدین‘‘ کہا۔

پچاس کی دہائی میں مصر پر جمال عبد الناصر کا راج تھا۔ اپنی حکومت ميں انہوں نے صحرائے سینا اور نہرِ سوئز سے انگریزوں اور فرانسیسیوں کو نکالا۔ شام اور مصر کو متحد کیا اور پھر خود کو صلاح الدین سمجھنے لگا۔ تب صلاح الدین پر ایک مشہور فلم بھی بنائی گئی، نام رکھا گیا: الناصر صلاح الدین۔

جی ہاں! ناصر اور صلاح الدین، شاید ناصر کو صلاح الدین ثابت کرنے کے لیے۔ لیکن حال یہ تھا کہ یہی جمال ناصر اپنے ملک میں اسلام کا نام لینے والوں کے خلاف تھا۔ جنوری 1954 میں ملک کی سب سے بڑی مذہبی جماعت اخوان پر پابندی لگائی اور انہی کے دور میں سید قطب کے علاوہ کئی علما کو پھانسیاں دی گئیں۔ ہزاروں گرفتار ہوئے، سالوں تک جیلوں میں سڑتے رہے لیکن موصوف صلاح الدین ایوبی بنے پھرتے تھے۔

صلاح الدین تو کبھی غیر مسلموں کے ساتھ بھی ایسا سلوک نہیں کیا۔

پھر ایک صلاح الدین عراق میں بھی آیا۔ نوے کی دہائی کا صدام حسین۔ اس نے تو صلاح الدین سے ایک رشتہ بھی نکال لیا اور وہ یہ کہ دونوں تکریت میں پیدا ہوئے تھے۔ اتنے سارے پیدا ہوئے۔ لیکن، حقیقی صلاح الدین کہاں ہے؟ مسلمانوں کی دعاؤں کے علاوہ کہیں اور نظر نہیں آتا۔

شیئر

جواب لکھیں