پاکستان اور انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کا love-hate relationship بہت پرانا ہے۔ آئی ایم ایف کچھ ارب ڈالر دینے كے لیے ایسی ایسی شرائط لگاتا ہے کہ عوام کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ مگر معیشت كے علاج كے نام پر عوام کو یہ کڑوی دوائی پلا دی جاتی ہے۔ بدقستمی سے آئی ایم ایف کی ساری شرائط پر عمل کرنے كے بعد بھی معیشت کی حالت ٹھیک نہیں ہوتی اور ہر کچھ عرصے بعد آئی ایم ایف كے ایمرجنسی وارڈ جانا پڑتا ہے۔
پاکستان 75 سال میں آئی ایم ایف سے 23 پروگرامز لے چکا ہے، یعنی پاکستان آئی ایم ایف کا 'مستقل ترین مریض' ہے۔ 21 پروگرامز كے ساتھ ارجنٹینا دوسرے نمبر پر ہے۔ دوسری طرف ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے بھارت نے آئی ایم ایف سے صرف 1 پروگرام لیا ہے۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستان کو بار بار آئی ایم ایف كے دروازے پر کیوں جانا پڑتا ہے اور اِس گھن چکر سے نکلنے کا طریقہ کیا ہے؟
پاکستان آئی ایم ایف كے پاس کیوں جاتا ہے؟
کسی بھی ملک کو آئی ایم ایف یا قرضہ دینے والے اداروں كے پاس اس وقت جانا پڑتا ہے جب اس كے فارن ایکسچینج ریزرو یعنی زرِ مبادلہ کے ذخائر ختم ہونے لگیں۔ یہ ذخائر درآمدات اور آئی ایم ایف، ورلڈ بینک یا دوسرے ملکوں سے لیے ہوئے قرضوں کی ادائیگی میں استعمال ہوتے ہیں۔
کسی بھی ملک كے فارن ایکسچینج ریزرو اُس وقت بڑھتے ہیں جب اس کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہو یعنی اس کی درآمدات کی ویلیو اس کی برآمدات کی ویلیو سے کم ہو۔ اگر امپورٹس ایکسپورٹس سے زیادہ ہوں تو جتنا تجارتی خسارہ ہو، اس سے زیادہ رقم ترسیلاتِ زر (remittances)، امداد یا کسی اور ذریعے سے مل جائے تو کام چلتا رہتا ہے۔ اسی طرح اگر اخراجات زیادہ ہوں اور آمدنی کم ہو تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پیدا ہوتا ہے۔ اِس کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے كے لیے بھی امداد یا قرضے کی ضرورت پڑتی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان شروع ہی سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور تجارتی خسارے کا شکار رہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی کبھی کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہوا ہو۔ بلکہ کئی بار تو یہ خسارہ معیشت كے 3 فیصد کی بلند ترین سطح پر بھی پہنچ جاتا ہے۔ جب کبھی ایسا ہو تو ہمیں فوراً آئی ایم ایف كے پاس بھاگنا پڑتا ہے۔
پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے کی بڑی وجہ کم ایکسپورٹس بھی ہیں، جو ہمیشہ سے بہت مایوس کون رہی ہے۔ پاکستان اپنی معیشت کا تقریباً 10 فیصد ایکسپورٹ کرتا ہے، جبکہ کامیاب معیشت رکھنے والے ملک اپنی معیشت کا 20 سے 30 فیصد ایکسپورٹ کرتے ہیں۔
اسی طرح کسی ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ کتنی بچت اور سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اگر کوئی ملک زیادہ سرمایہ کاری کرے تو اسے بھاری مشینری امپورٹ کرنی پڑتی ہے، جس سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پیدا ہوتا ہے۔
مگر یہ خسارہ برا نہیں ہوتا کیونکہ سرمایہ کاری کی وجہ سے گروتھ اور ایکسپورٹ بڑھتی ہے اور اس آمدنی سے انویسٹمنٹ کیپٹل یا قرضوں کی ادائیگی میں مدد ملتی ہے۔ اِس كے علاوہ جو سرمایہ آیا ہو وہ اگر قرضے كے بجائے فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ ( FDI) ہو تو اور بھی اچھا ہوتا ہے کیونکہ اگر معیشت بہتر پرفارمنس نہ بھی دے تو بھی اتنا بوجھ نہیں پڑتا کیونکہ سُود ادا نہیں کرنا پڑتا۔
پاکستان کا مسئلہ کیا ہے؟
پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ دونوں فرنٹ محاذوں پر ناکام ہے۔ پہلی بات یہ کہ ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اِس لیے نہیں کہ ہم بہت زیادہ انویسٹ کرتے ہیں۔ ہم اپنی معیشت کا صرف 15 فیصد انویسٹ کرتے ہیں جبکہ کامیاب ملک اپنی معیشت کا 30 سے 40 فیصد انویسٹ کرتے ہیں۔
ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اِس لیے ہے کیونکہ ہم خرچ زیادہ کرتے ہیں اور بچت کم کرتے ہیں۔ ہم اپنی اکونومی کا 95 فیصد خرچ کر جاتے ہیں جو امریکہ سے بھی زیادہ ہے، حالانکہ امریکہ کو Consumption Obsessed Economy کہا جاتا ہے۔ اِس حد سے زیادہ خرچ کی وجہ سے ہم زیادہ چیزیں ایکسپورٹ نہیں کر سکتے اور امپورٹس بھی بڑھتی ہے۔
زیادہ اخراجات کا یہ رجحان سرکاری اور نجی دونوں سیکٹرز میں ہے۔ پبلک سیکٹر میں ہمارا مالی خسارہ معیشت كے 5 سے 8 فیصد تک ہے جو بہت ہی زیادہ ہے۔ اسی طرح پرائیویٹ سیکٹر میں افراد اور کمپنیز اپنی عادات اور خراب بینکنگ سروسز کی وجہ سے بچت نہیں کرتیں۔
دوسرا یہ کہ پاکستان اپنے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے كے لیے FDI كے بجائے Borrowing کا سہارا لیتا ہے، جس سے قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہے۔ پاکستان میں FDI یعنی براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 2 فیصد ہے جبکہ کامیاب ملکوں میں یہ 5 فیصد تک ہے۔
فارن ریزرو ختم کیسے ہوتے ہیں؟
جب عالمی سطح پر قیمتوں کے بڑھنے یا ملک میں ڈیمانڈ بڑھنے کی وجہ سے ہمارا امپورٹ بِل بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے، اور باہر سے ڈالرز نہ آئیں تو Debt Servicing اور امپورٹس بِل کی پیمنٹ میں ریزرو ختم ہونے لگتے ہیں۔
ٹیکنیکل طور پر دیکھیں تو جب ہماری External Financing کی ضروریات ( کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ+ غیر ملکی قرضوں کی ادائیکی) ہماری دستیاب غیر ملکی سرمایہ کاری ( FDI، دوسرے ملکوں سے لیے گئے، آئی ایم ایف / ورلڈ بینک اور دوسرے داروں سے قرضوں) سے بڑھ جائے تو فارن ایکسچینج ریزرو گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔
جب یہ گیپ بہت زیادہ بڑھ جائے یا لمبے عرصے تک چلتا رہے تو یہ ریزرو ختم ہونے لگتے ہیں اور ہمیں آئی ایم ایف كے پاس جانا پڑتا ہے۔ ہر حکومت کو اپنی معیشت کا پتہ ہوتا ہے تو ایسی نوبت نہیں آنی چاہیے لیکن ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے مسئلہ ختم ہی نہیں ہوتا۔ یہ ہے وہ بیماری جو بار بار آئی ایم ایف كے پاس جانے پر مجبور کرتی ہے۔
آج کل پاکستان كے فاریکس ریزرو 3 بلین ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ دوسری طرف بنگلہ دیش كے ریزرو 35 بلین ڈالر ہیں، جبکہ افغانستان كے پاس بھی ہم سے زیادہ یعنی 9 بلین ڈالرز كے ریزرو ہیں۔ بھارت كے پاس تقریباً 600 بلین ڈالر جبکہ چائنا كے ریزرو لگ بھگ 4,000 بلین ڈالر ہیں۔
آئی ایم ایف سے نجات كے لیے کیا کریں؟
اِس مصیبت سے نکلنے كے لیے کچھ اقدامات ضروری ہیں:
1- ایکسپورٹس کو معیشت كے 20 فیصد تک بڑھایا جائے۔
2- سرکاری اخراجات میں کمی کر كے سیونگز اور انویسٹمنٹ کو 30 فیصد تک بڑھایا جائے۔
3- کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ختم کرنے كے لیے قرضوں كے بجائے غیر ملکی سرمایہ کاری( FDI) میں اضافہ کیا جائے۔
4- اپنی بیرونی مالی ضروریات اور اس كے لیے فنڈز کی دستیابی پہلے سے پلان کی جائے تاکہ ہر بار اتنا شدید جھٹکا نہ لگے۔
ان 4 نکات پر عمل کر كے ہی ہمارے فارن ایکسچینج ریزرو بڑھ سکتے ہیں اور ہمیں آئی ایم ایف كے پاس جانے سے نجات مل سکتی ہے۔