پاکستان کا اِس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے مہنگائی۔ محکمہ شماریات کے مطابق ملک میں اِس وقت مہنگائی کی شرح 31.6 فیصد ہے۔ لیکن امریکا کا جون ہوپ کنز یونیورسٹی میں اپلائیڈ اکنامکس کے معروف پروفیسر اسٹیو ہینک کہتے ہیں کہ اصل میں یہ شرح 64 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے، یعنی سرکاری اعداد و شمار سے تقریباً دو گنی ہے۔
ہینک نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں سب سے زیادہ مہنگائی کی شرح رکھنے والے ملکوں کا ایک 'انفلیش ڈیش بورڈ' بناتے ہیں اور مختلف مواقع پر اسے ٹوئٹ بھی کر چکے ہیں۔ ان کے آخری ٹوئٹ کے مطابق دنیا میں اس وقت مہنگائی کی سب سے زیادہ شرح جنوبی امریکا کے ملک وینیزوئیلا میں ہے، جہاں یہ ناقابلِ یقین حد تک 514 فیصد ہے۔ پھر 473 فیصد کے ساتھ زمبابوے اور 252 فیصد کے ساتھ لبنان کے نام آتے ہیں۔
ان کی اِس فہرست میں پاکستان کا نمبر بارہواں ہے، جو اس وقت 64 فیصد کی شرح پر کھڑا ہے۔ درمیان میں شام، مصر، ارجنٹینا، ایران، جنوبی سودان، سیرالیون، کیوبا اور گھانا جیسے ممالک ہیں۔ 18 ملکوں کی اس فہرست نائیجیریا اور ترکی بھی موجود ہیں۔
بہرحال، پاکستان میں جہاں ضرورت کی عام چیزوں کی قیمتیں تقریباً دو گنی ہو چکی ہے، افراطِ زر کی مجموعی شرح کا صرف 31 فیصد ہونا حیران کن تھا۔ پروفیسر ہینک نے اس مغالطے کو کافی حد تک ختم کر دیا ہے، جو کوئی چھوٹا موٹا نام نہیں بلکہ معیشت کے میدان میں کافی مشہور شخصیت ہیں۔ وہ 1981میں امریکی صدر رونلڈ ریگن کی بنائی گئی کونسل آف اکنامک ایڈوائزرز کا حصہ تھے۔ پھر دنیا کے کئی ملکوں میں مشیر بھی رہے۔ 1998 میں ورلڈ ٹریڈ میگزین نے انھیں 'دنیا کے مؤثر ترین افراد' کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ وہ اب فوربس، دی نیشنل ریویو اور دیگر معروف اشاعتی اداروں کے لیے لکھتے رہتے ہیں۔
پروفیسر ہینک نے مزید کہا ہے کہ جنوری 2022 سے اب تک پاکستانی روپیہ اپنی 37 فیصد قدر کھو چکا ہے، اس لیے پاکستان کو لازماً کرنسی بورڈ بنانا ہوگا۔