پاکستان كے روپے کی بے قدری کا سلسلہ ویسے تو 75 سال سے جاری ہے لیکن شروع كے 24 سال میں یہ گراوٹ کسی قدر آہستہ تھی۔ 1971 کی جنگ كے بعد پہلی بار ڈالر كے مقابلے میں روپے کی قدر آدھے سے بھی کم رہ گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو كے دور میں ڈالر 4.77 روپے سے بڑھا کر 11 روپے کا کر دیا گیا تھا۔

ضیا الحق نے بھٹو کو ہٹا کر اقتدار سنبھالا تو ڈالر 9.9 روپے کا تھا جو اگست 1988 میں طیارہ حادثے میں ضیا الحق کی موت تک 8.26 روپے کا ہو چکا تھا۔

بےنظیر بھٹو اور نواز شریف كے 2، 2 بار حکومت کرنے كے بعد 1999 میں ڈالر کی قیمت 51.7 روپے تک پہنچ گئی تھی . پرویز مشرف كے 11 سالہ اقتدار میں ڈالر تقریباً 20 فیصد مهنگا ہو کر 62.75روپے تک پہنچا۔

2008 سے 2013ء تک پاکستان پیپلز ’ پارٹی كے دور میں روپے نے اپنی 50 فیصد قدر کھو دی اور ڈالر 98 روپے کا ہو گیا تھا۔ جون 2013ء سے مئى 2017 تک ن لیگ كے دور میں ڈالر 115.5 روپے تک پہنچا۔ نگران حکومت كے 3 مہینے میں روپیہ مزید گرا اور اگست 2018ء میں ڈالر کی قیمت 124 روپے ہو گئی تھی۔

2018ء سے روپے کا زوال مزید تیز ہوا

اس كے بعد عمران خان كے ساڑھے 3 سال میں ڈالر مزید 60 روپے مهنگا ہوا۔ اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت كے خاتمے كے وقت ڈالر تقریباً 184 روپے کا ہو چکا تھا۔ عمران خان نے آئی ایم ایف كے کہنے پر کئی اقدامات کیے جن کا منفی اثر روپے کی قدر میں کمی کی صورت میں نکلا۔

پِھر رجیم چینج ہوا اور ڈالر کی ریکارڈ اننگز شروع ہوئی۔ آئی ایم ایف سے معاہدے میں تاخیر سے زر مبادلہ كے ذخائر کم ہوتے گئے۔ دوست ممالک نے بھی اپنے قرض آئی ایم ایف معاہدے سے مشروط کر دیے۔ پیٹرول، بجلی کی قیمت میں بے تحاشا اضافے، 170 ارب روپے كے نئے ٹیکسوں كے باوجود آئی ایم ایف قرض کی قسط دینے پر آمادہ نہیں اور ڈُو مور کا مطالبہ کر رہا ہے۔

ایسے میں روپے کی حالت اتنی بگڑ چکی ہے کہ 2 مارچ کو انٹر بینک میں ایک ہی دن میں 19‎ روپے کا ہوش رُبا اضافہ ہوا اور ڈالر 285 تک پہنچ گیا۔ اوپن مارکیٹ میں تو ڈالر 325 تک کا مل رہا ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے كے ڈالر کی وہی قدر مقرر کی جائے جو افغان بارڈر پر بلیک مارکیٹ میں ہے۔

ڈالر مہنگا ہونے سے کیا ہوتا ہے؟

ایک امپورٹ بیسڈ یعنی درآمدات پر انحصار کرنے والا ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان میں تقریباً ہر چیز کی قیمت ڈالر سے وابستہ ہو چکی ہے۔ ڈالر مهنگا ہونے سے پیٹرول، ڈیزل، بجلی، گیس کی قیمتیں بڑھتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ضروریات زندگی کی ہر چیز مہنگی ہونے لگتی ہے۔

پاکستان میں جہاں فروری میں مہنگائی کی شرح پہلے ہی 31 . 5 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔ اب روپے کی قیمت میں مزید گراوٹ سے مہنگائی کا ایسا طوفان آنے کا خطرہ ہے جو لوگوں کا بچے کچھے اثاثے بھی بہا لے جائے گا۔

تاریخی ریکارڈ کا جائزہ لینے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی معیشت کی تباہی میں ہر دور كے حکمرانوں کا ہاتھ رہا ہے۔ چاہے فوجی ڈکٹیٹرز ہوں یا سوِل حکمران، مسیحائی کا دعویٰ کرنے والوں نے ملک کی بیماریوں میں اضافہ ہی کیا۔ ہمارے ساتھ اور ہمارے بعد بننے والے ممالک بھی ترقّی کی دوڑ میں ہم سے آگے نکل چکے ہیں۔

ایشیاء كے دوسرے ملکوں کی کرنسی کا کیا حال ہے؟

ہر دور كے حکمران یہ دعوے بھی کرتے رہے ہیں کہ ہماری معیشت پڑوسی ممالک سے بہتر ہے۔ پاکستان میں مہنگائی بھی پڑوسی ملکوں سے کم ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان كے دعوے کس حد تک درست ہیں؟ اِس كے لیے ہم ایشیا كے ترقی پذیر ملکوں کی کرنسی کا 5 سال کا جائزہ لیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔

بھارت جیسے آبادی اور رقبے میں بڑے ملک کو تو چھوڑیں، افغانستان جیسے جنگ زدہ ملک میں بھی پچھلے 5 سال میں کرنسی کی قدر اتنی نہیں گری جتنی پاکستان میں گری ہے۔ اسی طرح ڈیفالٹ کرنے والے ملک سری لنکا کا روپیہ بھی پاکستانی کرنسی كے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہے۔

اوپر دیے گئے ٹیبل سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بنگلہ دیش جو 1971 میں پاکستان سے الگ ہوا تھا، پچھلے 50 سال میں ہر شعبے میں پاکستان سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اِس کی کرنسی 5 سال میں صرف 29 فیصد گری۔ تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور ملائیشیا جیسے ملکوں کی کرنسی بھی پاکستانی روپے كے مقابلے میں اچھا پرفارم کر رہی ہی۔

ایشیائی ممالک کی کرنسی كے جائزے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران ملکی معیشت کی تباہی كے لیے کورونا اور دیگر عالمی عوامل كے جو جواز تراشتے ہیں، ان میں کوئی سچائی نہیں ہے۔

شیئر

جواب لکھیں