پاکستان میں انٹرنیٹ کی معطلی کے تباہ کُن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق صرف ایک دن میں ٹیلی کام سیکٹر کو تقریباً 82 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ جبکہ خود حکومت کو بھی ٹیکس ریونیو کی مد میں 2.8 کروڑ روپے کا نقصان سہنا پڑا ہے۔

پھر وہ ادارے جن کے کام کا انحصار ہی انٹرنیٹ پر ہے، مثلاً کریم، ان ڈرائیو، فوڈ پانڈا اور اِن اداروں سے وابستہ افراد بھی بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ یہی نہیں ڈالر کو بھی پر لگ چکے ہیں۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 294 تک پہنچ چکا ہے اور یہ مزید آگے جاتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ پھر Remittances یعنی ترسیلاتِ زر میں ماہانہ بنیادوں پر 13 فیصد کی کمی آئی ہے اور اپریل 2023 میں یہ 2.2 ارب ڈالرز رہ گئے ہیں۔ پچھلے سال اپریل سے مقابلہ کریں تو یہ 29 فیصد کی کمی ہے۔ جبکہ رواں مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ میں ترسیلاتِ زر پچھلے سال کے 26.1 ارب ڈالرز سے 13 فیصد گھٹ کر 22.7 ارب ڈالرز رہ گئے ہیں۔

لیکن پاکستان کا اصل نقصان اس سے کہیں بڑا ہے۔ معاشی لحاظ سے ملک کا حال ویسے ہی بہت بُرا ہے، اس پر عمران خان کی گرفتاری سے جو حالات اب پیدا ہو گئے ہیں، وہ اسے دیوالیا ہونے کے اور قریب لے آئے ہیں۔ بلوم برگ کا کہنا ہے کہ موجودہ صورت حال میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے میں مزید تاخیر ہو سکتی ہے۔ یہ ایسی تاخیر ہے، جس کا پاکستان فی الحال متحمل نہیں ہو سکتا۔

کولمبیا تھریڈنیڈل انوسٹمنٹس کے سنگاپور میں تجزیہ کار اینگ ٹیٹ لو کہتے ہیں "اس وقت پاکستان کا دیوالیا ہونے سے بچنا بہت مشکل نظر آ رہا ہے۔ مجھے تو اس وقت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر بھی یقین نہیں۔ پاکستان کے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر ویسے ہی ڈانواں ڈول ہیں، اس پر اگلے چند مہینوں میں قرضوں کی واپسی بھی کرنی ہے۔ اس لیے دیوالیا ہونا یقینی نظر آتا ہے۔"

اس وقت عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے ملک کے کئی شہروں میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ملک میں امن و امان کی صورت حال انتہائی خراب ہے اور یہ سب عین اُس وقت ہو رہا ہے جب حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ 6.5 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج پر بات کر رہی ہے، جو دیوالیا ہونے سے بچنے کے لیے بہت ضروری ہے۔

پاکستان کے ڈالر بونڈز صرف 33.85 سینٹ کی قیمت کے ساتھ نومبر سے اب تک کی کم ترین سطح پر ہیں۔

Raftar Bharne Do

اس سے پہلے موڈیز انوسٹر سروس بھی کہہ چکی ہے کہ آئی ایم ایف نے قرضہ نہ دیا، تو پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا کیونکہ جون کے بعد اس کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔

ہانگ کانگ کے ماہر اقتصادیات ہاؤسن مو کا بھی کہنا ہے کہ "آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج میں تاخیر تو یقینی ہے، کیونکہ آئی ایم ایف کی شرائط میں سماجی استحکام بھی شامل ہے۔"

یہ بیل آؤٹ پیکیج جہاں مزید تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے، وہیں انتخابات کی آمد اس صورت حال کو مزید بگاڑ بھی سکتی ہے۔ پاکستان میں اگست کے بعد قومی انتخابات طے شدہ ہیں، تب تک کیا صورت حال پیدا ہوتی ہے؟ اس کے ملک کے مستقبل پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ فی الحال امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔

شیئر

جواب لکھیں