بجلی کے جھٹکوں سے بے حال عوام کو نگراں حکومت نے پہلے لالی پاپ دیا کہ انھیں ریلیف دیا جائے گا۔ کابینہ کا اجلاس بلایا گیا۔ مگر اس کے بعد اعلان ہوا کہ آئی ایم ایف کی اجازت کے بغیر کوئی ریلیف نہیں دے سکتے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کو جو ریلیف پیکیج منظوری کے لیے اس میں بھی بجلی کی قیمت میں کسی ریلیف کا ذکر نہیں تھا بلکہ یہ کہا گیا کہ بل 4 قسطوں میں وصول کرلیے جائیں۔ آئی ایم ایف کو بتایا گیا کہ قسطوں میں بل وصول کرنے سے 6 ارب روپے سے کم کا اثر پڑے گا۔ آئی ایم ایف نے یہ پلان مسترد کرتے کہا تھا کہ اس سے 15 ارب روپے سے زیادہ کا اثر پڑے گا اور توانائی کے شعبے کے گردشی قرضے میں اضافہ ہوگا۔ آئی ایم ایف نے یہ پلان مسترد کردیا تو اب حکومت نے نیا ریلیف پلان آئی ایم ایف کو بھیجا ہے۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق اس پلان میں کہا گیا ہے کہ آئی پی پیز کے لیے مختص اضافی رقم میں سے 15 ارب بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے کے لیے ایڈجسٹ کیے جائیں گے اور بل کی قسطوں میں وصولی کے بعد یہ رقم واپس آئی پی پیز کے لیے رکھ لی جائے گی۔
آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پلان پر وزارت خزانہ کے حکام دوبارہ بات کریں گے اور یقین دلائیں گے کہ حکومت بجٹ کی چادر سے باہر پاؤں نہیں پھیلائے گی۔ یعنی اس پلان میں بھی عوام کو مستقل ریلیف نہیں ملے گا۔ وہ جو تین سو یونٹ تک تین ہزار روپے کمی کی باتیں کی جارہی تھیں وہ بھی بس ہوائی باتیں تھیں۔ بہر حال یہ پلان منظور بھی ہوگیا تو عوام کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ ایک تو بلوں کی ادائیگی کی تاریخ بھی گزر چکی ہے، زیادہ تر لوگ قرض لے کر یا اپنا پیٹ کاٹ کر بل ادا کرچکے ہیں۔ اور ایک بل میں قسطوں کا ریلیف دے بھی دیا گیا تو اگلے بلوں کا کیا ہوگا؟ بجلی کے یونٹ کی قیمت تو آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق مزید بڑھانی ہیں۔ یعنی جب تک سردیاں نہیں آتیں بل زیادہ ہی آتے رہیں گے۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے فیول مہنگا ہوگا اور نتیجے میں بجلی اور مہنگی ہوگی۔ جب تک ڈالر کو لگام نہیں دی جاتی عوام بجلی کے بلوں کی صورت میں لگان دیتے رہیں گے۔

شیئر

جواب لکھیں