وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مالی سال 24-2023 کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔ وفاقی حکومت نے تمام اعداد و شمار ارب روپوں میں پیش کیے ہیں۔ ہم آپ کی آسانی کے لیے ڈالر میں یہ اعداد و شمار پیش کر رہے ہیں تاکہ آپ کو اندازہ ہوسکے کہ ملک کی معیشت کس سمت جارہی ہے۔ روپوں کو ڈالر میں بدلتے ہوئے ہم نے ڈالر کی انٹربینک قیمت یعنی 285 روپے استعمال کی ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب اسٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 4 ارب ڈالر کے قریب رہ گئے ہیں۔ آئی ایم ایف سے صرف سوا ارب ڈالر کی قسط حاصل کرنے کے لیے منتیں کی جارہی ہیں۔ کشکول لے کر دوست ملکوں کے دورے کیے جارہے ہیں۔ ایسے میں ساڑھے 26 ارب ڈالر کے خسارے کا کا مطلب ہے کہ معاشی استحکام کی منزل ابھی کوسوں دور ہے۔
پاکستان کے اگلے سال کے بجٹ کا کل حجم 50.7 ارب ڈالر (14460 ارب روپے) ہے۔ اخراجات کی بات کریں تو سب سے زیادہ رقم قرضوں اور سود کی ادائیگی پر خرچ ہوگی جس کا حجم 25.6 ارب ڈالر ہے۔ دفاع پر 6.3 ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔ ترقیاتی منصوبوں پر 4 ارب ڈالر لگائے جائیں گے۔ حکومتی ملازمین کی تنخواہیں اور سرکاری ادارے چلانے پر 2.5 ارب ڈالر اخراجات آئیں گے۔ پنشن کی مد میں 2.6 ارب ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔
آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا میں ضم شدہ اضلاع، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، ہائر ایجوکیشن کمیشن، ریلوے اور دیگر محکموں کو مجموعی طور پر 5.13 ارب ڈالر کی گرانٹ دی جائے گی۔ بجلی، گیس اور دیگر شعبوں کے لیے 3.76 ارب ڈالر کی سبسڈی رکھی گئی ہے۔
آمدنی کی بات کریں تو براہ راست ٹیکسوں کے ذریعے یعنی انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس وغیرہ سے 32.3 ارب ڈالر آمدن کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ نان ٹیکس ریونیو یعنی سرکاری جائیدادوں کے کرایے، سرکاری اداروں کے حصص پر منافع وغیرہ سے 10.4 ارب ڈالر ملنے کا امکان ہے۔ اس طرح وفاق کی مجموعی آمدن 42.7 ارب ڈالر ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اس میں سے 18.5 ارب ڈالر صوبوں کو دے دیے جائیں گے۔ جس کے بعد وفاق کے پاس 24.2 ارب ڈالر بچیں گے۔ جبکہ مجموعی اخراجات جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا 50.7 ارب ڈالر رہیں گے یعنی 26.56 ارب ڈالر کا خسارہ ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ساڑھے 26 ارب ڈالر کا یہ بجٹ خسارہ پورا کیسے کیا جائے گا؟ بجٹ دستاویزات کے مطابق تقریباً 11 ارب ڈالر ٹی بلز، پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز اور صکوک کی نیلامی سے حاصل کیے جائیں گے۔ 8.9 ارب ڈالر کے دیگر بیرونی قرضے لیے جائیں گے۔ جبکہ 6.7 ارب ڈالر کا انتظام مقامی طور پر نیشنل سیونگ سرٹیفکیٹ اور دیگر اسکیموں کے ذریعے کیا جائے گا۔ یعنی ملک جو پہلے ہی قرضوں کے پہاڑ تلے دبا ہوا ہے، اب اس میں مزید اضافہ ہوگا اور ان قرضوں پر مزید سود دینا پڑے گا۔
وفاقی بجٹ کے دیگر نمایاں اعداد و شمار
- اگلے مالی سال کے لیے جی ڈی پی میں اضافے کی شرح 3.5 فیصد رہنے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
- بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 6.54 فیصد رہنے کا امکان ہے۔
- اگلے مالی سال کے لیے برآمدات کا ہدف 30 ارب ڈالر اور ترسیلات زر کا ہدف 33 ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے۔
وفاقی بجٹ میں کیا کیا اہم تجاویز دی گئی ہیں؟
- بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں عائد کیا گیا۔
- ضروری اشیا کی درآمد پر کوئی نئی ڈیوٹی نہیں لگائی گئی۔
- کم از کم تنخواہ 32 ہزار روپے یعنی 112 ڈالر ماہانہ مقرر کی گئی ہے۔
- گریڈ 1 سے 16 کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
- گریڈ 17 سے 22 کے سرکاری ملازموں کی تنخواہ 30 فیصد بڑھائی گئی ہے۔
- صحافیوں اور فنکاروں کے لیے ہیلتھ انشورنس کا اعلان کیا گیا ہے۔
- فری لانسرز کے لیے انکم ٹیکس مراعات برقرار رکھی گئی ہیں۔