آئی ایم ایف معاہدے کا ذکر تو شاید اسحاق ڈار کی چڑ بن گیا ہے۔ کوئی سوال بھی کرے تو گویا مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار قومی اسمبلی میں خطاب کے بعد اپنے محافظوں کے جھرمٹ میں باہر نکلے تو صحافی  شاہد قریشی نے کہا کیا آج بات کریں گے؟  اسحاق ڈار نے جواب دیا کہ اندر بہت بات کرکے آئے ہیں۔

شاہد قریشی نے پوچھا کہ نہیں آئی ایم ایف سے متعلق پوچھنا ہے کہ وزیراعظم فرانس گئے ہیں تو کیا آئی ایم ایف کا پیکیج ملے گا؟ اسحاق ڈار نے کوئی جواب نہیں دیا۔ صحافی شاہد قریشی نے دوبارہ پوچھا کہ ناکامی کیوں ہورہی ہے؟ اس پر اسحاق ڈار نے طنزیہ کہا کہ کیوں کہ تم جیسے لوگ ہیں نا سسٹم میں۔

شاہد قریشی نے کہا ہم تو نہیں ہیں سسٹم میں ہم تو صرف سوال کرتے ہیں۔ اس پر اسحاق ڈار مڑے اور اس کے موبائل پر ہاتھ مارا اور کہا چاہتے کیا ہو؟ شاہد قریشی نے ان سے کہا آپ لڑ کیوں رہے ہیں۔ اس کے بعد اسحاق ڈار کے محافظوں نے بھی ہاتھ مار کر شاہد قریشی کا موبائل نیچے کیا۔

شاہد قریشی کا یہ الزام ہے کہ اسحاق ڈار نے ان کو تھپڑ مارا اور اس کے بعد اپنے محافظوں سے کہا کہ اس کا پیچھا کرو اور اس کو سبق سکھاؤ۔ شاہد قریشی کے مطابق وہ بمشکل چھپتے چھپاتے پریس گیلری تک پہنچے۔

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد صحافی برادری اور صحافتی تنظیموں کی جانب سے  واقعے کی مذمت کی جارہی ہے۔ سیاست دان بھی ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب نے لکھا  کہ اسحاق ڈار وزیر خزانہ کے جائے غنڈا بدمعاش  بن گئے ہیں۔ نواز شریف کا سمدھی اسحاق  ڈار ملک کو تباہی کے دہانے پر لے آیا ہے دلیل کے بجائے گلوکریسی شروع کردی ہے ۔ آزادی صحافت پر دکان چمکانے والے اب کہاں خاموش بیٹھے ہیں؟

یہ پہلا موقع نہیں کہ اسحاق ڈار آئی ایم ایف سے معاہدے کے سوال پر اتنا برہم ہوئے ہوں۔ چند ہفتوں پہلے بھی صحافی نے ایسا سوال کیا تھا تو اسحاق ڈار نے غصہ کرکے کہا تھا کہ پاکستان ڈیفالٹ تو نہیں ہوا نا۔ اسی طرح کچھ مہینے پہلے ماہر معیشت اور سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کی تنقید پر اسحاق ڈار چراغ پا ہوگئے تھے۔ انھوں نے پریس کانفرنس میں نام لیے بغیر شبر زیدی پر جوابی حملے کیے تھے۔ اسحاق ڈار نے الزام لگایا تھا کہ شبر زیدی نے اربوں روپے کے ری فنڈ دیے ان کو جیل میں ہونا چاہیے تھا۔

 اسحاق ڈار نے شبر زیدی پر الزام تو لگادیے مگر یہ نہیں بتایا کہ ایک سال سے تو ان کی حکومت ہے تو شبر زیدی کے خلاف کیس کرنے یا انھیں جیل میں ڈالنے سے کون روک رہا ہے۔

دوسری طرف آج وزیراعظم شہباز شریف کی آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر  کرسٹالینا جارجیوا سے پیرس میں ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تعاون اور قرض پروگرام پر تبادلہ خیال ہوا۔

وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ملاقات میں پاکستان کی معاشی صورتحال پر بات چیت ہوئی اور حکومت پاکستان کی جانب سے معاشی ترقی اور استحکام کی غرض سے لیے گئے اقدامات پر وزیراعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کو آگاہ کیا۔

وزیراعظم نے زور دیا کہ آئی ایم ایف کے نویں جائزے سے قبل لیے گئے اقدامات مکمل ہو گئے ہیں اور پاکستان بین الاقوامی ادارے کے ساتھ ہونے والے وعدوں پر عمل درآمد کے لیے پرعزم ہے۔

ملاقات کے دوران وزیراعظم نے امید کا اظہار کیا کہ آئی ایم ایف ایکسٹینڈڈ کریڈٹ فیسیلیٹی کے تحت جلد از جلد قرض کی قسط جاری گا۔

پاکستان کی تمام تر کوششوں، سفارتی رابطوں کے باوجود آئی ایم ایف پاکستان کو قرضے کی قسط جاری نہیں کر رہا۔  آئی ایم ایف نے پاکستان کے بجٹ پر بھی اعتراضات اور تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

حال ہی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا ایک بیان بھی سامنے آیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے پاکستان سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ کرے اس کے بعد ہم ان سے مذاکرات کریں تاکہ وہ اپنی مرضی کی شرائط منواسکے۔

شیئر

جواب لکھیں