بحرِ اطلس میں لاپتا ہونے والی ٹائٹن آبدوز کا ملبا مل گیا۔ اس میں سوار تمام افراد کی موت کی تصدیق کردی گئی ہے۔

امریکی کوسٹ گارڈ کے مطابق ٹائٹن آبدوز سمندر کی گہرائی میں اترتے ہی پانی کے شدید دباؤ کی وجہ سے پھٹ گئی تھی۔ اسی لیے اس کا رابطہ مدر شپ سے ٹوٹ گیا تھا۔

 ماہرین کے مطابق دھماکا ہوتے ہی اس میں سوار تمام افراد سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں موت کے منہ میں چلے گئے۔

 ٹائٹن آبدوز کا لینڈنگ گیئر، پچھلا کور اور فریم ٹائی ٹینک کے ملبے سے تقریبا سولہ سو فٹ دور ملا۔ جہاں ٹائی ٹینک جہاز کا ملبا نہیں تھا۔

 آبدوز کی تلاش کے لیے چھوٹے روبوٹ کو سمندر کی 12 ہزار فٹ گہرائی میں اتارا گیا تھا۔

ٹائی ٹینک کا ملبا دیکھنے کے لیے جانے والی آبدوز اتوار 14 جون کو سمندر میں اتری تھی اور صرف پونے دو گھنٹے بعد اس کا رابطہ منقطع ہوگیا تھا۔ ٹائٹن کی تلاش کے لیے چار دن سے سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن جاری تھا۔

ادھر امریکی نیوی کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ٹائٹن سے رابطہ منقطع ہونے کے کچھ دیر بعد  دھماکے سے ملتی جلتی ایک غیر معمولی آواز ریکارڈ کی گئی تھی جو ممکنہ طور پر آبدوز کے پھٹنے سے پیدا ہوئی تھی۔

امریکی ٹی وی چینل سی بی ایس نیوز سے بات کرتے ہوئے اہلکار نے بتایا کہ ان معلومات کو فوری طور پر امریکی کوسٹ گارڈ کو فراہم کیا گیا جنھوں نے اسے اپنی تلاش کا دائرہ محدود کرنے کے لیے استعمال کیا۔

تاہم انھوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ معلومات پہلے کیوں عام نہیں کی گئیں؟

Raftar Bharne Do

آبدوز حادثے میں مرنے والے کون تھے؟

 اس آبدوز میں پاکستان کے معروف بزنس مین 48 سالہ شہزادہ داؤد اور ان کا 19 سال کا بیٹا سلیمان داؤد بھی سوار تھے۔ شہزادہ داؤد اینگرو کارپوریشن کے وائس چیئرمین  اور داؤد ہرکولیس گروپ کے بھی نائب چیئرمین تھے۔ ان کے علاوہ برطانوی ارب پتی ایڈونچرسٹ ہمیشن ہارڈنگ، امریکی کمپنی اوشین گیٹ کے سی ای او اور بانی اسٹاکن رش اور فرانس کے ماہر غوطہ خور اور نیوی کے سابق اہلکار پال ہنری بھی اس آبدوز میں سوار تھے۔

Raftar Bharne Do

آبدوز کو حادثہ کیوں پیش آیا، کیسے پتا چلے گا؟

امریکی بحریہ کے ریئر ایڈمرل جان ماؤگر کے مطابق اب تک جو کچھ دریافت ہوا ہے وہ 'تباہ کن دھماکے'  کے قیاس کی تائید کرتا ہے۔ اب تک ملبے کے دو ڈھیر ملے ہیں۔ ٹائٹن کا پچھلا حصہ ایک ڈھیر میں پایا گیا ہے اور دوسرے ڈھیر میں ٹائٹن کا لینڈنگ فریم دکھایا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آبدوز میں دھماکا ہوا ہوگا۔

برطانیہ کی رائل نیوی کے سابق آبدوز کمانڈر ریان رمسے کے مطابق ریسکیو آپریشن میں شامل ایجنسیاں حادثے کی وجوہات جاننے کی کوشش کریں گی کہ حادثے کو کیسے روکا جا سکتا تھا۔ اس کے لیے وہ سمندر کی سطح سے ملبے کے ایک ایک ٹکڑے کو اٹھائیں گے۔

وہ کہتے ہیں، ’’اس آبدوز میں کوئی بلیک باکس نہیں تھا۔ ایسی صورت حال میں، آپ کو اس کے آخری مقام کے بارے میں معلومات نہیں ملے گی۔ لیکن اس کے علاوہ اس حادثے کی تحقیقات کا عمل کسی بھی طیارے کے حادثے کی تحقیقات سے مختلف نہیں ہوگا۔

ایفل ٹاور کے وزن جتنا دباؤ پڑا ہوگا

آبدوز کے ملبے کو سمندر سے نکالنے کے بعد اس کے ہر ٹکڑے کا مکمل جائزہ لیا جائے گا۔

استعمال کیے گئے کاربن فائبر فلیمینٹس کو جانچنے  کے لیے ملبے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو خوردبین سے گزارا جائے گا اور دیکھا جائے گا کہ تباہی کہاں سے شروع ہوئی۔

تحقیق کرنے والے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں گے کہ کیا حادثے کی وجہ ساختی خرابی تھی۔

ساؤتھمپٹن ​​یونیورسٹی کے پروفیسر بلیئر تھورٹن کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوا ہوگا تو آبدوز پر ایفل ٹاور کے وزن (10 ہزار ٹن) جتنا دباؤ پڑا ہوگا۔

آبدوز کا مرکزی حصہ ایک خوفناک حادثے کا شکار ہوا ہوگا جس میں آبدوز بہت تیزی سے بہت کم جگہ میں سکڑ کر گئی ہوگی۔

کچھ ماہرین کی رائے ہے کہ اس سب کے درمیان سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہوا ہے تو کیا یہ صحیح طریقے سے ٹیسٹ نہ کرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔

لندن کے امپیریل کالج کے پروفیسر روڈرک اے اسمتھ کہتے ہیں، "اگر کاربن فائبر میں اس کی تیاری کے دوران اندرونی نقائص ہوں تو اسے نقصان پہنچتا ہے۔

کاربن فائبر اور ٹائٹینیم کو جوڑنے والے پرزوں کو بہت زیادہ گہرائی سے جانچ کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس آبدوز میں تیزی سے ہونے والے دھماکے یعنی اندر کی طرف سکڑ جانے کی وجہ سے واقعات کا سراغ لگانا بہت مشکل ہوگا۔

وہ کہتے ہیں، ’’اس وجہ سے ملبا اٹھا کر اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔‘‘

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس تحقیقات کی سربراہی کون کرے گا کیونکہ اب تک اس قسم کے آبدوز کے حادثے کا کوئی طے شدہ طریقہ کار نہیں ہے۔

ریئر ایڈمرل ماگر کا کہنا ہے کہ یہ بہت پیچیدہ ہے کیونکہ یہ واقعہ گہرے سمندر میں پیش آیا جس میں مختلف قوموں کے لوگ شامل تھے۔

لیکن ریسکیو آپریشن میں امریکی کوسٹ گارڈ کی قیادت کی وجہ سے خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکی کوسٹ گارڈ اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

شیئر

جواب لکھیں