تفتیش کا ایک "نقطہ" جگہ بدل لے تو "محرم" "مجرم"بن جاتا ہے۔ اس کی زندہ اور حالیہ مثال لاہور میں پیش آنے والا ایک واقعہ ہے۔ جس میں ’’اغوا کار‘‘ قرار دی گئی خاتون عظمیٰ "جنسی زیادتی" کا شکار نکلی۔
"سچی کہانیوں میں ولن سمجھے جانے والے کردار اکثر مظلوم ہوتے ہیں" کیونکہ سننے والے تحقیق کرنے کی زحمت نہیں کرتے اور کہانی گو کی بات کو اٹل حقیقت تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ اس کہانی میں بھی ہوا۔
جنوبی چھاؤنی کے علاقے سے یکم جولائی کو چار سالہ یوسف کے اغوا کی واردات رپورٹ ہوئی۔ اسی روز ایک کلوزسرکٹ ٹی وی کی ویڈیو سامنے آئی جس میں گلابی رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ایک خاتون بچے کو ساتھ لے جاتے دیکھی گئی۔ پولیس نے سی سی ٹی وی کیمروں کی ویڈیو میں بچے کو خاتون کے ساتھ میٹرو بس میں جیل روڈ پر ریس کورس پارک تک جاتے دیکھا۔ یوسف اس خاتون کے ساتھ ایسے چل رہا تھا جیسے بالکل مانوس ہو۔ اٹھکیلیاں کرتا بچہ نامعلوم عورت کے ساتھ اس قدر پر اطمینان تھا جیسے خاتون اس کی "محرم" ہو۔
وہ رکشا ڈرائیور جس کے بیان نے کہانی کا رخ موڑ دیا
یہاں کہانی میں انٹری ہوتی ہے اصل ولن کی... جس کا راز پولیس تفتیش مکمل ہونے پہ کھلا۔
اعجاز بیگ بظاہر تو ایک رکشا ڈرائیور تھا لیکن اکیلی عورت اور کم سن بچہ دیکھ کر انھیں بطور سواری رکشے میں بٹھانے والے اس کردار نے چند منٹوں میں وہ سب اچھی طرح سمجھ لیا جو واردات کے تفتیش کار آخری وقت تک نہیں سمجھ سکے۔
یا یوں کہیے اس نے پولیس کی جلدی بازی کی حقیقت بھی کھول کے رکھ دی۔
وہ حقیقت یہ تھی کہ بچے کو ساتھ لے کر چلنے والی عورت ذہنی مریضہ ہے جس کو نہ خود کا ہوش ہے نہ ساتھ چلنے والے بچے کی خبر کہ وہ کون ہے۔
اسی کا فائدہ اٹھا کر ڈرائیور نے رکشا مصری شاہ چمڑا منڈی کی طرف موڑ لیا اور اپنے ایک دوست کو فون کرکے پہنچنے کی ہدایت کردی۔
رکشا ڈرائیور، خاتون اور بچے کو ایک بار پھر سڑک پر نصب سیف سٹی کے کیمروں نے عکس بند کیا جو پولیس تفتیش کی ایک اہم لیڈ ثابت ہوئی۔
پولیس نے رکشا ڈرائیور کی شناخت کے لیے اسی رکشے سے ملتے جلتے دس رکشا ڈرائیوروں کو پکڑ کر تفتیش کی اور آخر اعجازبیگ تک پہنچ گئی جو عورت اور بچے کو لے کر چلا تھا۔
اعجاز نے بتایا کہ اس نے خاتون اور بچے کو ریلوے اسٹیشن چھوڑ دیا تھا۔
عورت بچے کو لے کر اس سے آگے کہاں گئی کوئی نہیں جانتا تھا۔
پولیس ’’اغوا کار‘‘ خاتون اور مغوی بچے تک کیسے پہنچی؟
مغوی یوسف کی والدہ ایک وکیل صاحبہ کے ہاں ملازمت کرتی تھی۔ درد دل رکھنے والی خاتون وکیل آمنہ قادر نے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کیے۔ سوشل میڈیا پر معاملے کی تشہیر کی اور بچے کو بازیاب کروانے کے لیے پولیس پر دباؤ بڑھانا شروع کردیا۔
پولیس آٹھ دن تک کوشش کرتی رہی لیکن کوئی سراغ ہاتھ نہ آیا لیکن آٹھویں رات ٹوئیٹر پر ایک لڑکی کے میسج نے انھیں چونکا دیا۔ سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر آمنہ کے اکاؤنٹ پر میسج کرنے والی خاتون نے انکشاف کیا کہ یوسف راولپنڈی میں ایک خاتون ٹیچر کے پاس ہے اور ’’اغوا کار‘‘ خاتون ایدھی سینٹر منتقل کردی گئی ہے۔
پولیس نے راولپنڈی سے یوسف کو بازیاب کروا کے اس کو ساتھ لے جانے والی عورت کو گرفتار کیا اور لاہور منتقل کرتے ہی پولیس کی کارکردگی پر مبنی پریس کانفرنس کردی۔ جس میں خاتون کی شناخت عظمیٰ بتائی گئی۔ بچہ والدین کے حوالے کرکے عظمیٰ کو جیل بھجوادیا گیا۔
’’اغوا کار خاتون‘‘عظمیٰ حقیقت میں کون تھی؟
عظمیٰ کے گھر والوں نے بتایا کہ وہ کوئی عادی مجرم نہیں بلکہ ایک پڑھی لکھی خاتون ہے۔ جس کی شادی راولپنڈی میں کچھ سال پہلے ہوئی تھی۔ شوہر نے گھریلو ناچاقی پر طلاق دے دی تو نفسیاتی بیماری لاحق ہوگئی۔
طلاق کے بعد عظمیٰ اس حواس باختگی کے عالم میں کئی بار ایسے ہی لاہور میں اپنے گھر سے نکل کر راولپنڈی کا سفر کرچکی ہے مگر ذہنی حالت کی خرابی اسے کسی منزل تک پہنچنے نہیں دیتی تھی۔
گھر والوں نے علاج معالجے کے لیے اسے مینٹل اسپتال بھی داخل کروایا گیا لیکن افاقہ نہیں ہوا۔
مجرم قرار دی جانے والی عظمیٰ مظلوم کیسے نکلی؟
کہانی میں سنسنی خیز موڑ تب آیا جب رکشا ڈرائیور اعجاز نے انکشاف کیا کہ وہ رکشے میں بٹھاتے ہی پہچان چکا تھا کہ عظمیٰ ذہنی مریضہ تھی، اس نے موقع کا فائدہ اٹھایا اپنے دوست کو فون کر کے بلایا اور مصری شاہ چمڑا منڈی لے جاکر اس کے ساتھ "جنسی ذیادتی" کی۔
مگر پولیس ان تمام حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے بغیر میڈیکل کروائے عظمی کو اغوا کار قرار دے کر جیل بھجوا چکی تھی۔
لیکن رکشا ڈرائیور کے انکشاف کے بعد تفتیش سچی کہانی کے دردناک پہلو کی طرف موڑ دی گئی اورچیف منسٹر نے جلد بازی میں کاکردگی دکھانے والوں کے خلاف انکوائری شروع کرنے کا حکم دے دیا۔
بچے کی بازیابی کے کچھ دن بعد ایک نیا مقدمہ درج ہوا جس میں اغوا کار یا ملزمہ سمجھی جانے والی عظمی جنسی درندگی کی شکار کے طور پر سامنے آئی ہے اور رکشا ڈرائیور ریپ کا ملزم قرار دیا گیا ہے۔
اب کے بار تفتیش میں ’’نقطہ‘‘ کون سی جگہ لگایا جاتا ہے۔
کس کو محرم اور کس کو مجرم بنایا جاتا ہے؟ فیصلہ ہونا باقی ہے۔