اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ایک بڑے اسکینڈل کی زد میں ہے۔ یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی افسر سے آئس جیسی منشیات، جنسی دوائیں اور لاتعداد فحش ویڈیوز برآمد ہونے کے بعد یونیورسٹی پر سنگین سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔

ایسے میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر نے بڑا اعلان کیا ہے اور خود سمیت یونیورسٹی کے تمام ملازمین کا بلڈ ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ جامعہ میں نشہ استعمال کرنے والوں کا پتا لگایا جاسکے۔

یونیورسٹی ترجمان کے مطابق بلڈ ٹیسٹ میں مکمل شفافیت برتی جائے گی۔ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی، ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہدایت اور رہنما خطوط کے تحت، کیمپسوں میں منشیات کے حوالے سے عدم برداشت کا رویہ اپنایا ہے۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر کی گرفتاری کی خبریں بے بنیاد ہیں۔ کچھ شرپسند عناصر افواہیں پھیلا کر وی سی کی کردار کشی کر رہے ہیں۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے چیف سیکیورٹی افسر کب گرفتار ہوئے

پولیس کے مطابق اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے چیف سیکیورٹی افسر کو 20 جولائی کو گرفتار کیا گیا تھا۔

بہاولپور کے بغداد الجدید تھانے کے سب انسپکٹر محمد افضل نواز کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق یونیورسٹی کے قریب پولیس کے ناکے پر ایک کار کو رکنے کا اشارہ کیا گیا۔ پولیس کو دیکھ کر کار ڈرائیور نے واپس جانے کی کوشش کی لیکن اہلکاروں نے گاڑی کو روک لیا۔ کار اور ملزم کی جامہ تلاشی لی گئی تو ملزم کے قبضے سے 10 گرام آئس اور جنسی دوائیں برآمد ہوئیں۔

Raftar Bharne Do

 پولیس کے مطابق ملزم نے بتایا کہ اس کا نام اعجاز حسین شاہ ہے اور وہ اسلامیہ یونیورسٹی میں چیف سیکیورٹی افسر ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق ملزم کے پاس دو موبائل فون تھے جن کے پاس ورڈ موقع پر کھلوا کر جائزہ لیا گیا تو اس میں لاتعداد فحش ویڈیوز تھیں۔

ایف آئی آر کے مطابق ملزم اعجاز حسین شاہ نے آئس منشیات کے استعمال اور اسے فروخت کا اعتراف کیا اور یہ بھی بتایا کہ فحش ویڈیوز مختف شعبوں کی عہدیداروں اور طالبات کی ہیں۔

جمعے کو پولیس نے ملزم اعجاز حسین شاہ کا تین روزہ ریمانڈ حاصل کرلیا تھا۔ اس سے پہلے پچھلے مہینے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ڈائریکٹر فنانس ابوبکر بھی آئس سمیت گرفتار ہوئے تھے۔

Raftar Bharne Do

اسکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہے۔ شہری یونیورسٹی میں پڑھنے والی لڑکیوں کے حوالے سے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ دعوے بھی کیے جارہے ہیں کہ چیف سیکیورٹی افسر کے پاس سے ساڑھے 5 ہزار لڑکیوں کی فحش ویڈیو اور تصویریں برآمد ہوئی ہیں۔ کہیں ساڑھے 7 ہزار کا بھی دعویٰ کیا جارہا ہے۔ تاہم پولیس نے ویڈیوز کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کچھ نہیں بتایا ہے۔

دوسری طرف کچھ لوگ یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ کسی دینی مدرسے میں اگر کوئی معمولی سا اسکینڈل بھی ہو پورے ملک میں کہرام مچ جاتا ہے مگر یونیورسٹیوں میں آئے دن اس قسم کے گھناؤنے اسکینڈل سامنے آتے رہتے ہیں اور بات آئی گئی ہوجاتی ہے۔

شیئر

جواب لکھیں