واٹس ایپ، فیس بک، انسٹا گرام کے مالک مارک زکر برگ نے نیا سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’تھریڈز‘‘ لانچ کیا تو اسے ٹوئیٹر کے لیے بڑا خطرہ تصور کیا گیا۔ تھریڈز کی پہلے ہفتے میں پذیرائی سے بھی ایسا لگ رہا تھا کہ یہ پلیٹ فارم جلد ٹوئیٹر کا متبادل بن جائے گا مگر ایسا نہیں ہوسکا اور صرف پندرہ دن میں تھریڈز اپنی مقبولیت 70 فیصد گنوا چکا ہے۔

تھریڈز ایپ

5 جولائی کو لانچ کے صرف ایک ہفتے میں تھریڈز کو 10 کروڑ افراد سائن اپ کرچکے تھے۔ اس طرح تھریڈز نے چیٹ جی پی ٹی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ 7 جولائی کو تھریڈز کے روزانہ فعال صارفین کی تعداد 4 کروڑ 40 لاکھ ہوچکی تھی۔

اس کے بعد سے تھریڈز کے فعال صارفین کی تعداد میں مسلسل کمی آنے لگی ہے۔ سینسر ٹاور کے مطابق تھریڈز کے یومیہ فعال صارفین کی تعداد تقریبا ایک کروڑ 30 لاکھ رہ گئی ہے اور ایپ پر روزانہ گزارا جانے  والا اوسط وقت 4 منٹ ہے، جو اس کے لانچ کے دن کے 19 منٹ تھا۔

دوسری طرف ٹوئیٹر کے یومیہ فعال صارفین کی تعداد 20 کروڑ ہے اور اس پر صارفین اوسطاً روزانہ 30 منٹ صرف کرتے ہیں۔

تھریڈز ایپ

ٹوئیٹر اور تھریڈز دونوں تقریباً ایک ہی جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہیں لیکن تھریڈز ٹویٹر کی کچھ اہم خصوصیات سے محروم ہے۔ مثلاً اسے ڈیسک ٹاپ پر نہیں چلایا جاسکتا۔ اس پر کسی یوزر کو تو تلاش کیا جاسکتا ہے مگر کسی خاص موضوع کو نہیں۔

امریکی میڈیا کے مطابق میٹا کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ انھیں صارفین کی تعداد میں کمی کا اندیشہ تھا اور صارفین کو ایپ پر رکھنے کے لیے جلد نئے فیچر متعارف کرائیں گے۔

تھریڈز 5 جولائی کو لانچ کی گئی تھی جس پر صارفین میٹا کے دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام کا اپنا اکاؤنٹ استعمال کرتے ہوئے سائن اپ کرسکتے ہیں۔ 2 ارب سے زیادہ صارفین رکھنے والی انسٹا گرام کی مقبولیت نے ممکنہ طور پر تھریڈز کے لیے ابتدائی سائن اپ میں اضافہ کرنے میں مدد دی۔

2 ارب سے زائد ماہانہ صارفین کے ساتھ ، انسٹاگرام کی مقبولیت نے ممکنہ طور پر پلیٹ فارم کے لئے ابتدائی سائن اپ میں اضافہ پیدا کرنے میں مدد کی۔

وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق تھریڈز کے اجراءکے بعد پہلے دو دن میں ٹوئیٹر کی ویب ٹریفک میں گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں 5 فیصد کمی واقع ہوئی تھی۔ تاہم ٹیک کمپنی سینسر ٹاور کا کہنا ہے کہ تھریڈز کے لانچ کے بعد سے اس نے ٹوئیٹر کے ٹریفک میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں دیکھی۔

 میٹا کے سی ای او مارک زکربرگ نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ تھریڈز ان کی کمپنی کی جانب سے ٹوئٹر کی اس مارکیٹ کو نشانہ بنانے کی کوشش ہے جس پر بہت عرصے سے صرف ٹوئیٹر کی اجارہ داری ہے۔

زکربرگ نے تھریڈز پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ '’’میرے خیال میں عوامی بات چیت کی ایسی ایپ ہونی چاہیے جس پر ایک ارب سے زائد افراد ہوں۔ ٹوئیٹر کے پاس یہ صلاحیت تھی مگر وہ نہیں کرسکا، امید ہے ہم یہ منزل حاصل کرلیں گے۔‘‘

Raftar Bharne Do

میٹا نے یہ ایپ ایسے وقت میں لانچ کی جب ٹوئیٹر مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ ایلون مسک نے ٹوئیٹر کو 44 ارب ڈالر میں خریدا تھا مگر اب اس کی مالیت اس کا ایک تہائی یعنی 15 ارب ڈالر رہ گئی ہے۔

مسک کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے کمپنی نے متعدد متنازعہ فیصلے کیے، جن میں صارف کی ایک دن میں دیکھی جانے والی ٹویٹس کی تعداد کی عارضی حد کا نفاذ اور بلیو ٹک کے لیے فیس کی ادائیگی شامل ہے۔

جولائی میں ٹوئٹر کے وکیل نے میٹا کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کمپنی پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ تھریڈز بنانے کے لیے ٹوئیٹر کے سابق ملازمین کی خدمات حاصل کرکے ٹوئٹر کے 'تجارتی راز اور دیگر انٹلیکچوئل پراپرٹی' چوری کر رہی ہے۔ میٹا نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔

زکربرگ اور مسک کا جھگڑا سوشل میڈیا کے دائرے سے باہر بھی پھیل گیا ہے۔ تھریڈز کی ریلیز سے قبل مسک نے زکربرگ کو یو ایف سی طرز کی کیج فائٹ کا چیلنج دیا تھا، جسے برازیل کے جیوجٹسو میں تربیت حاصل کرنے والے زکربرگ نے بظاہر قبول کر لیا تھا، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ لڑائی ہوگی یا نہیں، کیونکہ مسک نے اپنا ارادہ کچھ حد تک بدل دیا ہے اور اشارہ دیا ہے کہ وہ اب اصل میں لڑنے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔

امریکی جریدے فوربز کے مطابق ایلون مسک 239 ارب ڈالر کے اثاثوں کے ساتھ دنیا کے امیر ترین شخص ہیں جبکہ مارک زکربرگ کی دولت کا تخمینہ تقریبا 105 ارب ڈالر لگایا گیا ہے اور وہ دنیا کے آٹھویں امیر ترین شخص ہیں

شیئر

جواب لکھیں