ایک اور جمعہ، ایک اور بڑا فیصلہ۔ سپریم کورٹ نے ہاؤس آف شریف سمیت پی ڈی ایم جماعتوں کو بڑا جھٹکا دے دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے نیب قوانین میں کئی ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔

2022 میں پی ڈی ایم سرکار نے آتے ہی نیب قوانین میں ایسی ترامیم کی تھیں کہ ان کے بڑے لیڈروں کے خلاف کرپشن کیس نیب کے دائرہ کار سے باہر ہوگئے تھے۔ ان میں سب بڑی ترمیم یہ تھی کہ 50 کروڑ سے کم کی کرپشن کی تحقیقات نیب نہیں کرسکتا تھا۔

اسی طرح آمدن سے زائد اثاثوں کی صورت میں بھی ملزم کو منی ٹریل دینے کے بجائے نیب کو ثابت کرنا تھا کہ اثاثے ناجائز ذرائع سے بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح بیرون ملک سے آنے والے ثبوتوں کو ناقابل قبول قرار دے دیا گیا تھا۔ ایسی ہی اور ترامیم تھیں جس کے ذریعے کرپشن کرنے والوں کو کھلی چھٹی دے دی گئی تھی۔

عمران خان نے ان ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، حالانکہ وہ چاہتے تو ان ترامیم سے خود بھی فائدہ اٹھا سکتے تھے اور ان کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس میں نیب کی تحقیقات ختم ہوسکتی تھیں لیکن انھوں نے سپریم کورٹ میں بیان حلفی جمع کرایا کہ وہ ان ترامیم سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے۔

نیب ترامیم سے کس کس کو فائدہ ہوا تھا؟

دوسری طرف ہم دیکھیں تو نیب قوانین میں ردوبدل سے سب سے زیادہ فائدہ شریف خاندان کو ہوا تھا۔  شہباز شریف کے خلاف وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر 1400 کنال زمین کی غیرقانونی الاٹمنٹ کا نیب کیس ختم ہوا۔ اختیارات کے ناجائز استعمال کا کیس بھی لپیٹ دیا گیا۔ کیونکہ ان میں کرپشن کی مالیت 50 کروڑ سے کم تھی۔  2014 سے 2018 تک شہباز شریف وزیراعلیٰ تھے مگر وزیراعظم کا طیارہ استعمال کرتے رہے، یہ کیس بھی نیب سے واپس لے لیا گیا تھا۔ اب یہ سارے کیس دوبارہ احتساب عدالتوں میں سنے جائیں گے۔

سابق وزیراعظم نوازشریف اور یوسف رضا گیلانی کے خلاف توشہ خانہ کیس بھی دوبارہ نیب میں چلیں گے۔ نواز شریف اور مریم نواز سمیت شریف خاندان کی ملکیت چوہدری شوگر ملز کے خلاف تحقیقات بھی دوبارہ نیب کرے گی۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف رمضان شوگر ملز ریفرنس بھی واپس کھلے گا۔

سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں، بے نامی داروں کے نام پر ساڑھے نو کرروڑ روپے کے غیر قانونی اثاثوں اور 10 کروڑ روپے کے غیرقانونی منافع کی انکوائری بھی نیب میں دوبارہ شروع ہوجائے گی۔

سابق وزیر دفاع خواجہ آصف کے خلاف کینٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کا کیس بھی دوبارہ کھلے گا۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، اسحاق ڈار، خواجہ سعد رفیق بھی دوبارہ نیب کے ریڈار پر آجائیں گے۔

ن لیگ کے علاوہ زرداری اینڈ کمپنی کو بھی نیب ترامیم سے بڑا فائدہ ہوا تھا۔ اب سابق صدر آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کے ریفرنس پھر چلیں گے۔ منی لانڈرنگ اور جعلی اکاؤنٹس کیس میں اومنی گروپ کے انور مجید، ان کے بیٹے عبدالغنی مجید، منظور کاکا کے ریفرنس بھی بحال ہوں گے۔ سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کے چھ ریفرنس، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف یو ایس ایف فنڈ ریفرنس بھی پھر کھل جائیں گے۔

ان کے علاوہ سینیٹر سلیم مانڈوی والا اور شرجیل میمن سمیت دیگر پی پی رہنماؤں کے کیس بھی نیب میں ری اوپن ہوں گے۔  پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی دوبارہ نیب کی چھلنی سے گزریں گے اور انھیں بےنامی جائیداد کا جواب دینا ہوگا۔

آج کل کے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ پر بھی گھوٹالے کرکے مال بنانے کا الزام ہے۔ اب ان کا احتساب بھی نیب کرے گا۔

ان کے علاوہ مخدوم خسرو بختیار، عامر محمود کیانی، اکرم درانی، سردار مہتاب عباسی نورعالم خان، نواب اسلم رئیسانی، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، نواب ثناء اللہ زہری، برجیس طاہر، فرزانہ راجا، روبینہ خالد، نواب علی وسان، لیاقت جتوئی، امیر مقام، گورم بگٹی، جعفر خان مندوخیل، گورنر گلگلت بلتستان سید مہدی شاہ پر بھی نیب میں انکوائریاں یا ریفرنس چل رہے تھے جو نیب ترامیم کے بعد بند کردیے گئے تھے۔ اب یہ سارے کیس بھی ری اوپن ہوں گے۔

سپریم کورٹ نے تمام نیب کسی اسی دن سے بحال کیے ہیں جس دن سے ختم ہوئے ہیں۔ اور یہ حکم بھی دیا ہے کہ سات دن میں کیس وہیں سے شروع کیے جائیں جہاں سے ختم ہوئے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کس کس کے خلاف نیب کو ثبوت ملتے ہیں اور کس کس کو احتساب عدالتوں سے سزا ملتی ہے۔

شیئر

جواب لکھیں