ایک بے وقت اور غیر ضروری پاک افغان سیریز، جس کے لیے ایک انتہائی بے تُکا اسکواڈ بنایا گیا، بالآخر اپنے انجام کو پہنچی۔ پاکستان افغانستان کے ہاتھوں تاریخ میں پہلی بار کوئی میچ ہارا، پھر ایک قدم آگے بڑھا، سیریز بھی ہارا اور آخر میں بڑی مشکل سے کلین سوئپ کی ہزیمت سے بچا۔

اس سیریز کے لیے پاکستان نے اپنے تقریباً سارے ہی اہم کھلاڑیوں کا آرام کا موقع دیا تھا۔ کپتان بابر اعظم کے علاوہ محمد رضوان، شاہین آفریدی، فخر زمان اور حارث رؤف، یہ سب اس سیریز میں نہیں کھیلے۔ ان کی جگہ پاکستان سپر لیگ سیزن 8 میں پرفارم کرنے والے کئی نوجوانوں کو پہلی بار اسکواڈ کا حصہ بنایا گیا۔ کچھ ایسے بھی تھے جو پہلے ٹیم کا حصہ رہ چکے ہیں لیکن بین الاقوامی کرکٹ کا بہت معمولی تجربہ رکھتے ہیں۔ کچھ نے تو اپنی کارکردگی سے حیران کر دیا اور ہیرو بن گئے، لیکن کچھ ایسے بھی تھے جن مکمل طور پر ناکام رہے۔

آئیں پاک-افغان سیریز کے ہیرو اور زیرو بننے والے پاکستانی کھلاڑیوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔

ہیرو: احسان اللہ

سب سے پہلے احسان اللہ۔ ایک ایسے باؤلر جنھیں پی ایس ایل 8 سے پہلے کوئی جانتا بھی نہیں ہوگا۔ لیکن ان کا نام کچھ ہی دنوں میں سب کی زبانوں پر تھا۔ اس سیزن میں 22 وکٹیں لے کر ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ حاصل کرنے والے احسان اللہ نے پاک-افغان سیریز میں بھی بہت متاثر کیا۔ بلکہ اس سیریز میں اپنی پہلی ہی گیند پر وکٹ حاصل کی۔ پہلے ٹی ٹوئنٹی میں انھوں نے پہلی گیند پر ابراہیم زدران کو آؤٹ کیا اور اسی اوور میں گلبدین نائب کی وکٹ بھی لیں اور سیریز میں سب سے زيادہ وکٹیں لینے والے باؤلر کی حیثیت سے سامنے آئے۔

یہ احسان اللہ ہی تھے جنھوں نے آخری ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کی کامیابی کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے ایک ہی اوور میں نجیب اللہ زدران کو ایک باؤنسر پر بُری طرح زخمی کیا۔

بال بال بچے صائم ایوب

اسی طرح صائم ایوب نے بھی کسی حد تک متاثر کیا، کیونکہ وہ پہلے دونوں میچز میں ناکام ہوئے تھے لیکن سیریز کے آخری مقابلے میں انھوں نے اپنی صلاحیت ثابت کر دکھائی۔ وہ اپنی پہلی نصف سنچری کے حقدار تھے لیکن 49 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے۔ بہرحال، یہ اننگز انہیں ناکام کھلاڑیوں کی فہرست میں جانے سے بچا گئی۔

زیرو نمبر وَن

اگر ہم ناکام کھلاڑیوں کی بات کریں تو سب سے پہلے اعظم خان کا نام آتا ہے۔ ایک ایسا کھلاڑی جو حال ہی میں دنیا کی مختلف لیگز میں کمال دکھا چکا تھا، دو سال بعد اپنی پہلی انٹرنیشنل سیریز میں اتنی بری طرح ناکام ہوگا، کس نے سوچا تھا؟ اعظم خان پہلے میچ میں ہی صفر پر آؤٹ ہوئے جبکہ دوسرے میں ان کی اننگز صرف ایک رن پر تمام ہوئی۔

لیکن بیٹنگ سے بڑھ کر اعظم کی ناکامی وکٹ کیپر کی حیثیت سے نظر آئی۔ کئی اہم مراحل پر وکٹوں کے پیچھے اُن کی کارکردگی نے پاکستان کو سخت نقصان پہنچایا۔ یہی وجہ ہے کہ تیسرے ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان نے اعظم خان کو بٹھانے کا فیصلہ کیا۔

زمان بھی بچ نہ پائے

ویسے وکٹوں کے لحاظ سے دیکھیں تو زمان خان کافی پیچھے نظر آئے۔ انھوں نے صرف دو وکٹیں حاصل کیں لیکن کم از کم انھوں نے دوسروں کے مقابلے میں کافی کم رن دیے اور ایک موقع پر جب آخری اوور میں صرف پانچ رنز کا دفاع کرنا تھا، تو میچ کو پانچویں گیند تک لے آئے۔ اگر وکٹوں کے پیچھے بائے کے رن نہ دیے جاتے اور ایک مشکل کیچ پکڑ لیا جاتا تو شاید میچ بھی نکال جاتے۔ خیر، ریکارڈ بک میں تو وہ بھی کامیاب کھلاڑیوں میں شمار نہیں ہوں گے۔

اب آگے کیا؟

لیکن ان ناکامیوں کا مطلب یہ نہیں کہ نئے کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اب بھی انھیں وقتاً فوقتاً مواقع دینے کی ضرورت ہے لیکن موقع کی مناسبت سے اور اور ٹیم کا توازن کو برقرار رکھتے ہوئے۔ ایک ساتھ پانچ، چھ تجربہ کار کھلاڑیوں کو باہر کرنا، وہ بھی افغانستان جیسی ٹیم کے مقابلے پر، جس کے خلاف پاکستان اپنے تین، چار آخری انٹرنیشنل میچز اپنی بہترین ٹیم اتارنے کے باوجود بڑی مشکل سے جیتا تھا، عقلمندی کا تقاضا نہیں تھا۔ بہرحال، اب تو جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔

شیئر

جواب لکھیں