جرمن پروفیسر ولیم ساگن نے کچھ سال پہلے اپنی ریسرچ میں کہا تھا کہ ہم تیل پر جنگیں لڑچکے، یہ جنگیں ہماری زندگی میں ہی لڑی گئیں۔ اسی طرح اب پانی کے لیے جنگیں ہوں گی اور ہوسکتا ہے کہ یہ بھی ہماری زندگی میں ہی ہوں اور اس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں۔ یہ بھی پیشگوئی تھی کہ رواں صدی پانی تیل کی طرح مہنگا ہو جائے گا۔

Raftar Bharne Do

ارباب اختیار کو اگر اقتدار کی کشکمش اور مخالفین کو دنیا کی بدترین مخلوق ثابت کرنے سے فرصت ملے تو تھوڑی توجہ اس طرف بھی دی جائے کہ پانی کی جنگ ہماری سرحد پر پہنچ چکی ہے۔ حال ہی میں ایران اور افغانستان کے درمیان سرحدی جھڑپ کی خبر نظر سے گزری تو روح کانپ گئی کہ خدا خدا کرکے دہائیوں پرانی افغانستان جنگ ختم ہوئی۔ یہ پھر کون سا نیا بکھیڑا کھڑا ہوگیا۔ تفیصلات میں گئے تو پتا چلا معاملہ پانی کا ہے۔ ایران کا الزام  ہے کہ افغانستان دریائے ہلمند پر ڈیم بناکر پانی کا بہاؤ روک رہا ہے، یہ دریا ایران کے مشرقی حصے کو سیراب کرتا ہے۔ ماضی میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان اس معاملے پر نوک جھونک ہوتی رہی ہے لیکن اب معاملہ بہت آگے نکل چکا ہے۔ ایران کے کئی حصوں کو گزشتہ ایک دہائی سے بدترین خشک سالی کا سامنا ہے وہیں جنگ زدہ افغانستان کو ملکی نظام چلانے اور زراعت کے لیے پانی اور بجلی کی ضرورت ہے۔

Raftar Bharne Do

پانی کے لیے جنگ کا خطرہ کن ممالک کو ہے؟

پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی کچھ اسی طرح کا آبی تنازع ہے ۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پانی کی کمی اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے طلب میں اضافہ دونوں ملکوں کے لیے ہی تشویش کا باعث ہے ۔ بھارت اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے جہلم پر 330 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت والے کشن گنگا ڈیم اور دریائے چناب پر 850 میگاواٹ والے رتلے ڈیم کی تعمیر میں مصروف ہے جس پر پاکستان کو شدید تحفظات ہیں ۔ پاکستانی حکام کے مطابق بھارت کے  ہائیڈرو پاور ڈیموں  کے یہ منصوبے پانی کے بہاؤ کو کم کر دیں گے جو پاکستان میں زراعت کے لیے درکار پانی کی کم از کم اسی  فیصد ضروریات کو پورا کرتے ہیں ۔ پاکستان نے اس معاملے پر عالمی عدالت انصاف سے بھی رجوع کر رکھا ہے۔

Raftar Bharne Do

دوسری طرف چین بھی تبت میں ایک بہت بڑا ڈیم تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس سے چین حقیقی معنوں میں اس قابل ہو جائے گا کہ وہ جب چاہے بھارت کا پانی بند کر دے۔ یہی نہیں اس ڈیم کے بل بوتے پر چین پورے جنوبی ایشیا کو میسر پانی کی سپلائی بھی باآسانی کنٹرول کرنے کی غیر معمولی صلاحیت حاصل کرلے گا۔ اگر خطے پر نظر دوڑائیں تو ترکی اور ایران، اسرائیل اور اردن اور مصر اور ایتھوپیا کے درمیان بھی پانی کا تنازع چل رہا ہے۔

پانی کے لیے جنگ اور موسمیاتی تبدیلی کا تعلق

کتنی عجیب بات ہے کہ صرف چند دہائیوں قبل دنیا تیل کے ذخائر اور دیگر قدرتی وسائل کے لیے ایک دوسرے پر بموں کی بارش کر رہی تھی وہاں نوبت اب پانی کے لیے جنگوں کی آچکی ہے۔ اس کی بڑی وجہ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے رکازی ایندھن (فوسل فیول) اور کاربن کا بے تحاشا اخراج ہے، جس نے فطرت سے ایسی چھیڑ چھاڑ کر دی ہے جس کا خمیازہ ترقی پذیر ممالک کو کبھی سیلاب تو کبھی گرمی کی لہر (ہیٹ ویو) اور کبھی خشک سالی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مسلسل گرم ہوتے موسم کی وجہ سے گلیشیئر پگھل رہے ہیں جو دریاؤں اور سمندروں میں طغیانی کا سبب بن کر بستیوں کی بستیاں ملیامیٹ کر رہے ہیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال پاکستان کی ہے جہاں گزشتہ برس آنے والے سیلاب نے وہ تباہی مچائی جو تاریخ میں کبھی نہیں آئی تھی۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ دنیا فوری طور پر فوسل فیول کو ترک کرکے گرین انرجی پر شفٹ ہوجائے لیکن تیل کی دولت سے جیبیں بھرنے والی عالمی استعمار اتنی آسانی سے یہ لت چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوگی ۔ اگرچہ اس حوالے سے تھوڑی بہت پیش رفت ہو بھی رہی ہے لیکن اس کی رفتار بہت کم ہے۔ اس کی مثال آپ یوں لے سکتے ہیں اس وقت افریقہ کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ وہ دنیا کو 39 فیصد متبادل توانائی فراہم کر سکتا ہے لیکن اس سیکٹر میں عالمی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے، یعنی صرف 2 فیصد ۔ اقوام متحدہ واضح کر چکی ہے کہ اگر ہم زمین کا درجہ حرارت مستحکم رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر صورت 2030 تک کاربن کے اخراج میں 45 فیصد کمی کرنی ہوگی۔ عالمی توانائی ایجنسی کے مطابق اب ہم کوئلے، گیس اور تیل سیکٹر میں مزید سرمایہ کاری کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

Raftar Bharne Do
پانی کے لیے جنگوں کا آغاز؟ 1

 گزشتہ برس کوپ 27 اجلاس میں بجائے اس کے کہ عالمی طاقتوں پر زور دیا جائے کہ وہ کاربن کے اخراج میں تیزی سے کمی لائیں، ایک فنڈ کی منظوری دی گئی، جس کے تحت ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ممالک کی مدد کرنا تھا۔ دو ماہ قبل یونیسکو کی ایک رپورٹ میں پانی کے عالمگیر بحران اور اس سے پیدا ہونے والے تنازعات پر بات کرتے ہوئے دنیا پر زور دیا گیا ہے کہ وہ جنگوں کے بجائے پرامن انداز میں ان مسائل کو حل کریں ۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ایک بار پھر کوپ 28 اجلاس رواں سال 30 نومبر کو دبئی میں ہونے جا رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عالمی قیادت عالمی طاقتوں کے مفاد کا خیال رکھتی ہے یا پھر انسانیت کو بچانے کی فکر کرتی ہے۔

تحریر: محمد زبیر

شیئر

جواب لکھیں