جب زمین لرزنے لگتی ہے۔ اونچی اونچی عمارتیں جھولتی، لڑکھڑاتی اور پھر گر جاتی ہیں۔ سڑکوں پر شگاف اور دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ لوگ گھروں اور عمارتوں کے ملبے تلے زندہ دفن ہوجاتے ہیں۔ ہر طرف چیخ پکار اور افراتفری پھیل جاتی ہے۔ یہ بہت خوفناک مناظر ہوتے ہیں۔ مگر یہ مناظر انسان صدیوں سے دیکھتا آرہا ہے اور شاید اس دنیا کے فنا ہونے تک دیکھتا رہے گا۔

ویسے تو زلزلے اور سمندری طوفان کو دنیا کی خطرناک ترین قدرتی آفت کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اب تک لاکھوں زندگیاں نگل چکے ہیں۔ مگر سمندری طوفان کے مقابلے میں زلزلہ زیادہ خوفناک ہوتا ہے کیونکہ اس کی پیش گوئی ممکن نہیں ہوتی۔ سمندری طوفان کے متعلق کئی دن پہلے سے پتا چل جاتا ہے۔ مگر زلزلے کا پہلے سے پتا چلا لینا اب تک ممکن نہیں ہوسکا۔ اس کے علاوہ سمندر میں خطرناک سونامی بھی زلزلے ہی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ 26 دسمبر 2004 کو آنے والا تباہ کن سونامی بھی 9.13 شدت کے زلزلے کی وجہ سے آیا تھا۔

2004 Main Zalzalay Ke Baad Tsunami Se Tabahi Ka Manzar
2004 Main Zalzalay Ke Baad Tsunami Se Tabahi Ka Manzar

روزانہ کتنے زلزلے آتے ہیں؟

دنیا بھر میں روزانہ ہزاروں زلزلے آتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر اتنی کم شدت کے ہوتے ہیں کہ انسان کو محسوس ہی نہیں ہوتے۔ مگر ہر دہائی میں کم از کم ایک بڑا زلزلہ آتا ہے جیسا کہ 6 فروری 2023 کو ترکی اور شام میں 7.8 شدت کا زلزلہ آیا۔ سائنس دانوں کے مطابق یہ اس دہائی کے تباہ کن ترین زلزلوں میں سے ایک ہوسکتا ہے۔ آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ زلزلے زیادہ تر کہاں آتے ہیں۔ ان کی پیمائش کیسے کی جاتی ہے اور طاقت ور زلزلے سے کتنا نقصان ہوسکتا ہے۔

سب سے زیادہ زلزلے کہاں آتے ہیں؟

دنیا کے 80 فیصد سے زیادہ زلزلے بحرالکاہل کے کناروں پر ہوتے ہیں جسے رنگ آف فائر یعنی آگ کا دائرہ کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں زمین کے اندر آتش فشانی سرگرمی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر زلزلے فالٹ زون میں آتے ہیں جہاں ٹیکٹونک پلیٹیں آپس میں ٹکراتی یا رگڑتی ہیں۔ ٹیکٹونک پلیٹیں وہ پتھریلی چٹانیں ہیں جن سے زمین کی باہر والی تہ بنی ہوئی ہے۔

Raftar Bharne Do
بحر الکاہل کا رِنگ آف فائر

ان پلیٹوں کے رگڑنے یا ٹکرانے کے اثرات عام طور پر زمین کی سطح پر محسوس نہیں ہوتے لیکن اس کے نتیجے میں ان پلیٹوں کے درمیان شدید تناؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ جب یہ تناؤ تیزی سے خارج ہوتا ہے تو شدید لرزش پیدا ہوتی ہے جو جسے سائزمک ویوز یعنی زلزلے کی لہر کہتے ہیں۔ یہ لہریں مرکز سے سیکڑوں میل دور تک محسوس کی جاتی ہیں۔ دوسری قسم کے زلزلے فالٹ زون سے دور آتے ہیں جب ٹیکٹونک پلیٹیں پھیلتی یا سکڑتی ہیں۔

Raftar Bharne Do
Dunya Ki Major Tectonic Plates Aur Zalzalay Ke Imkanat

زلزلوں کی شدت کی  پیمائش

سائنس دان کسی زلزلے کی طاقت اور لرزش کے دورانیے کے مطابق زلزلے کی ریٹنگ کرتے ہیں۔ 3 سے 4.9 میگنی ٹیوڈ کا زلزلہ مائنر یا ہلکا زلزلہ سمجھا جاتا ہے۔ 5 سے 6.9 کا زلزلہ درمیانے سے طاقت ور مانا جاتا ہے۔ 7 سے 7.9 شدت کا زلزلہ شدید اور 8 سے زیادہ کا تباہ کن زلزلہ قرار دیا جاتا ہے۔

زلزلے سے پیدا ہونے والی توانائی کو اگر دھماکا خیز مواد کے لحاظ سے ناپا جائے تو 5 شدت کے زلزلے سے 18 لاکھ کلو گرام دھماکا خیز مواد جتنی توانائی پیدا ہوتی ہے۔ 6 شدت کا زلزلہ 56 کروڑ کلو گرام بارودی مواد کے دھماکے کے برابر ہوتا ہے۔ 7 شدت کے زلزلے سے 18 ارب کلو گرام دھماکا خیز مواد جتنی توانائی خارج ہوتی ہے۔ 8 شدتکا زلزلہ 56 ارب کلوگرام دھماکاخیز مواد جتنی توانائی پیدا کرتا ہے۔ 9 شدت کے زلزلے سے 18 کھرب کلوگرام دھماکا خیز مواد جتنی توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔

تمام زلزلوں کے بعد آفٹرشاکس یا ضمنی زلزلے آتے ہیں۔ یہ ہلکی شدت کے زلزلے ہوتے ہیں جو طاقت ور زلزلے کے بعد کئی دن، کئی ہفتے اور بعض صورتوں میں کئی سال تک آسکتے ہیں۔ یو ایس جی ایس کے مطابق کچھ زلزلوں سے پہلے فورشاکس بھی آتے ہیں۔

ریکارڈ کے مطابق دنیا کا سب سے شدید ترین زلزلہ 1960 میں چلی میں آیا تھا جو 9.5 شدت کا تھا۔ والدویویا ارتھ کوئیک سے 1655 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 20 لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوگئے تھے۔ اس زلزلے سے سونامی بھی پیدا ہوا تھا جس سے بحرالکاہل کے اس پار نیوزی لینڈ، جاپان اور ہوائی کے ساحلی علاقے ڈوب گئے تھے۔

زلزلے سے نقصانات

دنیا بھر میں اوسطاً ہر سال 8 شدت کا ایک زلزلہ آتا ہے اور مختلف زلزلوں میں سالانہ تقریباً 10 ہزار اموات ہوتی ہیں۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں عمارتیں گرنے سے ہوتی ہیں اس کے علاوہ زلزلے کے نتیجے میں سونامی، سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور آگ لگنے سے بھی تباہی مچتی ہے۔ زلزلے کے بعد آنے والے آفٹر شاکس سے بھی مزید تباہی پھیلتی ہے اور متاثرہ علاقوں تک رسائی اور امدادی کارروائیوں میں رکاوٹ ہوتی ہے۔

Raftar Bharne Do

زلزلے سے ہونے والے جانی نقصانات کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایمرجنسی پلاننگ کی جائے، لوگوں میں آگہی پھیلائی جائے کہ زلزلے کی صورت میں کیا کرنا چاہیے اور ایسی عمارتیں تعمیر کی جائیں جو زلزلے کے دوران بھی محفوظ رہ سکیں۔

پاکستان میں 8 اکتوبر 2005 کے زلزلے سے زیادہ تباہی اس لیے پھیلی تھی کیونکہ ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کوئی ادارہ ہی نہیں تھا۔ امدادی کارروائیوں کے لیے نہ مطلوبہ مشینری تھی اور نہ کوئی میکنزم تیار کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ لوگوں کو بھی یہ نہیں پتا تھا کہ زلزلہ آنے کی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟ جان بچانے کے لیے کہاں جانا چاہیے؟ اس زلزلے کے بعد پاکستان میں نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ سیل قائم کیا گیا۔

Raftar Bharne Do
2005 Ke Zalzaaly Mein Tabah Honay Wala Margalla Tower

کراچی سمیت پاکستان کے کئی شہر فالٹ لائن پر واقع ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں عمارتوں کی تعمیر میں قوانین کی پابندی نہیں کی جاتی اور نہ عالمی معیار کا خیال رکھا جاتا ہے۔ 2005 کے زلزلے میں اسلام آباد میں ایک کثیرمنزلہ عمارت مرگلہ ٹاور بھی زمین بوس ہوگئی تھی۔ ایسے میں یہ خدشہ برقرار ہے کہ خدانخواستہ پاکستان کے کسی بڑے شہر میں آنے والا کوئی طاقت ور زلزلہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا سکتا ہے۔

شیئر

جواب لکھیں