ٹیکنالوجی نے سب کچھ بدل دیا ہے۔ ہر چیز کی جگہ کسی نئی ٹیکنالوجی نے لے لی ہے۔ بہت سی چیزیں جو کچھ دہائیوں پہلے ہماری زندگی کا لازمی حصہ تھیں، آج اُن کا نام و نشان بھی نہیں۔ ہاں ! کتابوں کو چھوڑ کر۔

ٹیکنالوجی انقلاب نے بہت کچھ بدلا، بُکس بھی ای-بُکس بن گئیں اور پھر کچھ ہی عرصے میں ہمیں ای بک ریڈرز بھی مارکیٹ میں نظر آنے لگے۔ ڈیجیٹل لائبریریز نے بھی بہت جگہ بنائی۔ یوں ای-بُکس کے لیے میدان تیار ہو گیا اور یہ خوب فروخت ہوئیں۔ ای-بُکس کی سب سے بڑی مارکیٹ امریکا میں آج سے 10 سال پہلے ہی ای-بُکس کی فروخت کُل بُک سیلز کا 20 فیصد ہو گئی تھی۔ لیکن آج تک ای-بُکس کاغذی کتابوں کی جگہ نہیں لے سکیں۔

10 ملکوں میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق آج بھی لوگ کاغذی کتابوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اِس سروے میں شامل 42 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کم از کم 1 پرنٹ بُک ضرور موجود ہے، جبکہ صرف 15.5 فیصد کے پاس کوئی ای-بُک تھی۔

جرمنی میں پرنٹ بکس کے چاہنے والے سب سے زیادہ ہیں، جہاں 58 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ پرنٹ بُک خریدتے ہیں جبکہ چین میں ای-بُکس کے چاہنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ تقریباً 24.4 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ انھوں نے سروے ایئر میں کم از کم 1 ای-بُک خریدی ہے۔

ای-بُکس خریدنے میں سب سے پیچھے ہے بھارت، جہاں صرف 5.6 فیصد لوگوں نے کہا کہ ان کے پاس کوئی ای-بُک ہے۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں یہ شرح اِس سے بھی کم ہوگی کیونکہ ہمارا ہاں کتابیں پڑھنے کا رجحان تو انڈیا سے بھی کم ہے۔

آخر کیوں؟

آخر کاغذی کتابیں اتنی مقبول کیوں ہیں؟ آخر ای-بُکس آج تک ان کی اجارہ داری کیوں ختم نہیں کر سکیں؟ یہ بہت اچھا سوال ہے اور اِس کا جواب بہت ہی دلچسپ ہو گا۔ لیکن یہ بات تو سامنے ہے کہ آہستہ آہستہ سہی لیکن ای-بُکس مارکیٹ حاصل کر رہی ہیں۔ اندازہ ہے کہ 2025 تک ای-بُکس کی عالمی مارکیٹ ‫18.4 ارب ڈالرز کی ہوگی۔ لیکن کیا وہ کاغذی کتابوں کو پیچھے چھوڑ پائیں گی؟ یہ کہنا بہت مشکل ہے۔

شیئر

جواب لکھیں