یہ ہیں مائیکل جارڈن! کون ہے جو اِنھیں نہیں جانتا۔ وہ صرف باسکٹ بال ہی نہیں، پوری اسپورٹس تاریخ کا بہت بڑا نام۔  لیکن ایک مڈل کلاس گھرانے کا لڑکا کیسے بنا باسکٹ بال کا لیجنڈ؟ اور ساتھ ہی پوری اسپورٹنگ تاریخ کا امیر ترین کھلاڑی؟ آج ہم سنائیں گے وہ کہانی، جس کے دونوں کریکٹرز ہمارے فیورٹ ہیں: ایک اسپورٹس، دوسرا پیسہ۔ جی ہاں! آج ہم بتانے جا رہے ہیں کھیلوں کی تاریخ میں سب سے زیادہ کمانے والوں کے بارے میں  اور یہ بھی کہ ہمارے پسندیدہ کھیل کرکٹ میں کتنا مال ہے؟

تو شروعات کرتے ہیں مائیکل جارڈن سے، صرف ایک کھلاڑی نہیں، ایک phenomenon۔ آخری دم تک، آخری لمحے تک ہار نہ ماننے والا جارڈن، ہوا میں اڑنے والا 'ایئر جارڈن' ۔

مائیکل جارڈن نے جہاں بڑی شہرت حاصل کی، وہیں انھیں پیسہ بھی بہت ملا۔ اتنا کہ آج ریٹائرمنٹ کے 20 سال بعد بھی سب سے زیادہ کمانے والوں میں مائیکل جارڈن نمبر وَن ہیں۔ ایم جے کی صرف کیریئر کمائی ہے 2.37 بلین ڈالرز ۔ اسے انفلیشن کے لحاظ سے ایڈجسٹ کریں تو آج کے حساب سے 3.3 بلین ڈالرز بنتے ہیں۔

اور اس لسٹ میں وہ اکیلے باسکٹ بال پلیئر نہیں۔ سب سے زیادہ کمانے والے ٹاپ 50 پلیئرز میں سے 13 باسکٹ بال کے ہیں۔  تو آخر بڑے بڑے کھیل باسکٹ بال سے پیچھے کیسے رہ گئے؟ اس کی وجہ ہے امریکا !  سپر پاور اور دنیا کا امیر ترین ملک، جس کا ثقافتی اثر بھی بہت زیادہ ہے اور اسپورٹس ورلڈ پر گرفت بھی ۔ اندازہ لگائیں کہ ٹاپ 50 کی اس لسٹ میں 31 کھلاڑی امریکن ہیں۔

باسکٹ بال کے بعد سب سے مال دار کھیل ہے گالف۔ ہم تو یہی سمجھتے تھے کہ گالف بہت کم لوگ دیکھتے ہوں گے۔ لیکن اصل بات یہ نہیں کہ کتنے لوگ دیکھ رہے ہیں؟ اصل بات ہے دیکھ کون رہا ہے؟  گالف کھیلنے والے امیر، دیکھنے والے امیر تو امیروں کے کھیل میں پیسہ نہیں ہوگا تو کہاں ہوگا بھائی؟

سب سے زیادہ کمانے والوں میں مائیکل جارڈن کے بعد دوسرے ہی نہیں، تیسرے اور چوتھے نمبر پر بھی گالفر ہی ہیں، تو آپ گالف کو بڈھوں کا شوق سمجھیں، فارغ لوگوں کا کھیل کہیں، کچھ بھی بولیں مگر گالف میں اتنا مال ہے کہ سوچ ہے آپ کی!

گالف کے لیجنڈ ہیں ٹائیگر ووڈز، نام تو سنا ہوگا!  وہ ہیں مائیکل جارڈن کے بعد سب سے زیادہ کمانے والے کھلاڑی ۔ وہ اپنے کیریئر میں ریکارڈ 11 بار PGA پلیئر آف دی ایئر بنے اور کمائے ٹوٹل 1.77 بلین ڈالرز ۔

پھر تیسرے نمبر پر ہیں آرنلڈ پالمر ۔ اُنھوں نے 50 کی دہائی میں گالف کی دنیا میں قدم رکھا اور اتنے پیسے کمائے کہ آج کے حساب سے 1.7 بلین ڈالرز بنتے ہیں۔

پھر آتے ہیں ایک اور امریکی گالفر جیک نکلاس ، جنھیں کہا جاتا ہے "The Golden Bear"۔ انھوں نے تاریخ میں سب سے زیادہ 18 میجر چیمپیئن شپ جیتیں اور اتنا مال کمایا کہ آج کے لحاظ سے بنیں گے 1.63 بلین ڈالرز ۔

صرف یہ تین نہیں، ٹاپ 10 میں ایک اور گالفر بھی ہے۔ دسویں نمبر پر ہیں فل میکل سن، جنھوں نے اپنے کیریئر میں 1.36 ارب ڈالرز کمائے۔ اب آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ گالف میں کتنا پیسہ ہے۔  ٹاپ 10 میں سب سے زیادہ 4 کھلاڑی گالف ہی کے ہیں  تو اب اگر اسے فارغ بڈھوں کا کھیل کہا تو اچھا نہیں ہوگا!

ویسے اپنے کرن ارجن کہاں رہ گئے؟ میرا مطلب ہے رونالڈو اور میسی کہاں ہیں؟   

ہو سکتا ہے آپ سمجھتے ہوں میسی زیادہ بڑے کھلاڑی ہیں؟  ہوں گے!  پر جب بات ہو پیسوں کی تو رونالڈو کا کوئی مقابلہ نہیں۔ وہ کیریئر میں اب تک 1.58 بلین ڈالرز کما چکے ہیں ۔ رونالڈو ورلڈ کپ تو نہیں جیت سکے، ہاں! ریکارڈ بہت سے بنائے اور ساتھ ہی بڑا مال بھی کمایا۔ وہ سب سے زیادہ کمانے والوں کھلاڑیوں کی لسٹ میں پانچویں نمبر پر ہیں۔

پھر چھٹے نمبر پر ایک اور باسکٹ بال لیجنڈ آتے ہیں: LeBron James، جو اپنے کیریئر میں اب تک 1.53 بلین ڈالرز کما چکے ہیں۔

پھر آتے ہیں ارجنٹینا کے چیمپیئن فٹ بالر، لیونیل میسی، جن کے پاس سب کچھ ہے "بنگلہ ہے، گاڑی ہے، بینک بیلنس ہے،" بس یہ بینک بیلنس رونالڈو سے تھوڑا سا کم ہے۔  میسی اب تک اپنے کیریئر میں 1.48 بلین ڈالرز بنا چکے ہیں، اور اس لسٹ میں اُن کا نمبر ہے ساتواں۔

میسی کے بعد ٹاپ ٹین میں ہیں: امریکی باکسر فلائیڈ مے ویدر، ٹینس کے سپر اسٹار راجر فیڈرر اور پھر گالفر فل میکل سن۔

پھر آپ ٹاپ ففٹی کی لسٹ دیکھیں تو آپ کو ہر کھیل کا کھلاڑی ملے گا: باسکٹ بال اور فٹ بال کے اسٹارز، گالف اور ٹینس کے لیجنڈز، باکسنگ، فارمولا ون، بیس بال، امریکن فٹ بال، موٹر سائیکل ریسنگ کے کھلاڑی، یہاں تک کہ ایک خاتون ٹینس اسٹار بھی، نہیں ملے گا تو کوئی کرکٹر نہیں ملے گا۔

کیوں؟

کرکٹ تو فٹ بال کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ دیکھا جاتا ہے، پھر جب پیسوں کی بات آئے تو کرکٹ اتنا پیچھے کیوں؟  اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔  پہلا یہ کہ چاہے جتنے بھی لوگ دیکھتے ہوں، کرکٹ پروفیشنلی کھیلا بہت کم جاتا ہے  دنیا بھر میں فرسٹ کلاس، لسٹ A یا کوئی بھی اہم لیگ کھیلنے والے کھلاڑیوں کی تعداد صرف 4 ہزار ہے۔

اِس کے مقابلے میں فٹ بال دیکھیں، اس کے رجسٹرڈ کھلاڑیوں کی تعداد 24 کروڑ ہے اور کلبس بھی 3 لاکھ ہیں۔

یہی نہیں باسکٹ بال تو ٹاپ 5 پاپولر اسپورٹس میں بھی نہیں آتا، پھر بھی اُس کے پروفیشنل پلیئرز کی تعداد ہے ڈیڑھ لاکھ۔  یعنی کھیل کا صرف دیکھنا کافی نہیں، لوگوں کا بڑی تعداد میں باقاعدہ کھیل سے جڑا ہونا بھی ضروری ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ کرکٹ بہت بہت مہنگا کھیل ہے۔ آپ تمام ٹیم اسپورٹس دیکھ لیں، شاید ہی کوئی کھیل کرکٹ جتنا مہنگا ہو۔  ایک عام کھلاڑی کے لیے مناسب سی کرکٹ کٹ لاکھوں روپے میں آتی ہے۔ پھر کرکٹ کے لیے جس انفرا اسٹرکچر بلکہ میگا اسٹرکچر کی ضرورت ہوتی ہے، جتنی ٹیکنالوجی درکار ہے، وہ بھی اس کے پاپولر اسپورٹ بننے میں بڑی رکاوٹ ہے۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ کرکٹ دیکھنے والے تو بہت ہیں، لیکن اُن کا تعلق ایسے ملک سے نہیں جو رکھتا ہو ۔ ہاں، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ ہیں،  پر اُن کی آبادی اتنی نہیں۔ پھر انگلینڈ بھی ہے، مگر وہاں نمبر وَن اسپورٹ کرکٹ نہیں، فٹ بال ہے۔ تو لے دے کر رہ جاتے ہیں پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش۔ جہاں دیکھنے والے تو بہت ہیں لیکن نہ وہ مال دار ہیں اور نہ ہی اثر و رسوخ۔

اب آتی ہے چوتھی اور بہت بڑی وجہ، کرکٹ کا کوئی گلوبل اسٹار نہیں ہے۔ جیسے باسکٹ بال میں مائیکل جارڈن تھے۔ ٹینس میں راجر فیڈرر اور رافیل نڈال ، فٹ بال میں رونالڈو اور میسی اور گالف میں ٹائیگر ووڈز۔

گلوبل اسٹار کیا کرتا ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب 1996 میں نائیکی نے ٹائیگر ووڈز سے معاہدہ کیا تھا تو کمپنی کی ٹوٹل گالف سیلز 25 ملین ڈالرز تھیں۔ ٹائیگر ووڈز کے آتے ہی اگلے 10 سالوں میں یہ سیلز پہنچ گئیں 796 ملین ڈالرز تک۔  یہ ہے پلیئر پاور!

تو کرکٹ کو بھی ضرورت ہے ایسے ہی کسی پاور پلیئر کی۔  ابھی تک کرکٹ میں جتنے کھلاڑی آئے ہیں، سب لوکل اسٹارز ہیں، گلوبل اسٹار کوئی نہیں۔

تو اسپورٹس ورلڈ میں کرکٹ کا مستقبل کیا ہے؟

مایوس نہ ہوں، امید کی ایک چھوٹی سی کرن ہے ٹی ٹوئنٹی لیگز۔ کرکٹ کھیلنے والے تقریباً ہر بڑے ملک میں اب لیگ کرکٹ ہو رہی ہے۔ چاہے آپ کو یہ تیز رفتار کرکٹ کتنی ہی بُری کیوں نہ لگے، حقیقت یہ ہے کہ کرکٹ کو آگے لے جانے میں لیگز کا بہت بڑا کردار ہوگا۔ فیڈریشن آف انٹرنیشنل کرکٹرز ایسوسی ایشن (FICA) نے ایک سروے کروایا ہے، جس میں آدھے سے زیادہ کرکٹرز نے کہا کہ وہ ایک اچھے لیگ کانٹریکٹ کے لیے اپنی قومی ٹیم چھوڑنے کو بھی تیار ہیں۔

یہ سارے کھلاڑی کون سی لیگ کھیلنا چاہتے ہیں؟ سیدھی سی بات ہے انڈین پریمیئر لیگ ۔ تو چاہے پاکستانیوں کو پسند ہو یا نہ ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کرکٹ کا فیوچر انڈیا سے جڑا ہوا ہے۔ اب پاور بھی وہیں ہے اور پیسہ بھی !

اور یہ بات ہم ہواؤں میں نہیں کہہ رہے، ابھی ثابت کر کے دکھاتے ہیں۔  سال 2022 میں سب سے زیادہ کمانے والے کھلاڑیوں میں

ٹاپ 100 میں ایک کرکٹر بھی نظر آتا ہے، 61 نمبر پر: ویراٹ کوہلی۔  انڈین سپر اسٹار نے ایک سال میں تنخواہ کمائی 2.9 ملین ڈالرز اور انڈورسمنٹ میں حاصل کیے 31 ملین ڈالرز۔ یوں اُن کی ایک سال کی کمائی بنی 33.9 ملین ڈالرز۔ یہ کمائی انھیں 2022 کے ٹاپ 100 پلیئرز میں لے آئی ہے۔

کرکٹ تاریخ دیکھیں تو اس میں سب سے زیادہ پیسہ کمایا ہے سچن تنڈولکر نے۔ تقریباً 24 سال کے کیریئر میں سچن کی کُل کمائی تھی 165 ملین ڈالرز۔ ایم ایس دھونی جیسے لیجنڈ کی آمدنی بھی 113 ملین ڈالرز سے زیادہ نہیں۔ اِن کے بعد صرف کوہلی ہیں، جنھوں نے کیریئر میں 100 ملین ڈالرز کمائے ہیں۔

پاکستانی کرکٹرز کی بات کریں تو ان کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ کہا جاتا ہے کہ امیر ترین پاکستانی کرکٹر عمران خان ہیں، جنھوں نے اپنے کیریئر میں 70 ملین ڈالرز کمائے۔ پھر نام آتا ہے اپنے لالا شاہد خان آفریدی کا، جن کی کُل کمائی 47 ملین ڈالرز رہی۔

آپ کے لیے بھی  آخری امید یہی ہے، یعنی کھیل۔ ‏50، 60 سال کی تاریخ دیکھ لیں، کھلاڑی تو دنیا میں انقلاب لے آئے ۔  محمد علی اور دوسرے سیاہ فام کھلاڑیوں نے امریکا سے نسل پرستی ختم کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ آج محمد صلاح، حبیب نور محمدوف، کریم بن زیما جیسے کھلاڑی مسلمانوں کے حوالے سے دنیا کا نظریہ بدل رہے ہیں۔ یہ وہ تبدیلی ہے جو کھیل لا سکتا ہے۔

پھر انفرادی سطح بھی دیکھیں تو کھیل آپ کو سخت محنت سکھاتا ہے، ڈسپلن، ٹیم ورک سکھاتا ہے، کلیئرٹی آف مائنڈ دیتا ہے، اپنی زندگی میں اہداف بنانا سکھاتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ اہداف ایک قاعدے قانون کے اندر رہتے ہوئے حاصل کرنا بھی سکھاتا ہے۔ یعنی ایک اچھی زندگی گزارنے کا ہر سبق آپ کو ملے گا کھیل میں۔  

تو ڈاکٹر اور انجینیئر بننا اچھا ہے، مگر لگتا ہے کھلاڑی بننا زیادہ اچھا ہے۔  اس میں صرف مال ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ ہے۔ آپ کھیل کے ذریعے اپنی ہی نہیں، بہت سے لوگوں کی زندگیوں پر اثر ڈال سکتے ہیں۔  ہر نسل، ہر عمر کے لوگوں کے ہیرو بن سکتے ہیں۔ ایک دنیا ہوگی، جو آپ کے ایک اشارے پر چلے گی  یقین نہیں آتا تو عمران خان کو دیکھ لیں، وہ اس کی زندہ مثال ہیں۔

شیئر

جواب لکھیں