Author: رفتار
حسینہ واجد پھر جلا وطن تھیں اور ان کے ملک میں داخلے پر پابندی تھی۔ لگ رہا تھا کہانی ختم ہوئی، لیکن اصل میں یہ نئی کہانی کا اسٹارٹ تھا۔
یہ جاوید میانداد ہی تھے جنہوں پاکستان کو یقین دلایا کہ وہ صرف میچ ہی نہیں ٹورنامنٹ بھی جیت سکتا ہے۔ یہ کہانی ہے پاکستان کرکٹ کے ’’اسٹریٹ فائٹر‘‘ جاوید میانداد کی۔
گوجرانوالہ کرکٹ اسٹیڈیم میں فرسٹ کلاس میچ ہو رہا تھا۔ کھلاڑیوں میں رمیز راجا جیسے انٹرنیشنل اسٹارز بھی شامل تھے لیکن انہیں دیکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ سخت گرمی تھی لیکن اس کے باوجود دوسرا سیشن شروع ہوتے ہی گراؤنڈ بھرنا شروع ہو گیا۔ دس بیس پچاس کی ٹولیوں میں تماشائی اسٹیڈیم میں آنا شروع ہو گئے۔ کچھ ہی دیر میں پورا اسٹیڈیم کھچا کھچ بھر گیا۔ کھلاڑی حیران تھے کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟ مگر پھر تماشائیوں کے ساتھ ساتھ پولیس بھی آنا شروع ہو گئی۔ کچھ ہی دیر میں ایک ایس ایچ او صاحب میدان میں داخل…
یہ کہانی ہے بے جا ایڈونچرزم کی، یہ کہانی ہے بلند عزائم لیکن گھٹیا پلاننگ کی، یہ کہانی ہے خود سے کہیں بڑے دشمن سے لڑ جانے کی، یہ کہانی ہے 1965 کی جنگ کی۔
کیا واقعی پاکستان کی تاریخ میں عمران خان سے بڑا اور اچھا کپتان کوئی نہیں؟ اس سوال کا جواب جانیے کہ کون ہے پاکستان کرکٹ کا عظیم کپتان؟
وحید مراد نے مختصر زندگی میں بہت کچھ حاصل کیا۔ مگر یہ دکھ ضرور ہے کہ اگر وہ وقت اور حالات دیکھتے ہوئے اپنا مزاج تھوڑا سا بھی بدل لیتے تو وحید مراد اور بھی بہت کچھ حاصل کر سکتے تھے۔
ذلّت ریپبلک آف پاکستان
شاہ نواز پچھلے ڈھائی گھنٹے سے لائن میں کھڑا ہے۔ وہ پیدا تو اسی ملک میں ہوا ہے، مگر مسلسل انتظار نے اسے شک میں ڈال دیا ہے۔ کیا واقعی وہ اس ملک کا شہری ہے؟ کیا شناخت کے حصول کا کوئی با عزت طریقہ نہیں؟ تنگ آ کر وہ اب اندر جانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مجھے بچوں کے لیے بچوں کے لیے بے فارم بنوانا تھا۔ گھنٹوں سے باہر کھڑا ہوں۔ بس خواری ہے اور ٹائم ضائع کرنا ہے۔ سارا دن یہیں نکل جائے گا۔ پیچھے تو ہم کافی چیزوں کو پینڈنگ میں ڈال کر آئے ہیں۔…
اکہتر کی جنگ اپنے عروج پر تھی، لیکن پاک فوج کی تمام ٹاپ براس اس وقت راولپنڈی میں ہونے والی ایک پارٹی میں موجود تھی اور مہمان خصوصی کوئی اور نہیں جنرل یحییٰ خان خود تھے۔
مارچ 1979 میں بھٹو کی پھانسی سے چند دن پہلے ضیاء الحق نے انتہائی غیر متوقع طور پر پاکستان کے جوہری طاقت ہونے کا اعلان کر دیا۔
ہجوم نے رخ بدلا اور اب وہ سر گنگا رام کے اسٹیچو پر پل پڑا۔ لاٹھیاں برسائیں، اینٹیں اور پتھر پھینکے۔ ایک نے تو بت کے منہ پر تارکول تک مل دیا۔ دوسرے نے بہت سے پرانے جوتے جمع کیے اور ہار بنا کر بت کے گلے میں ڈالنے کے لیے آگے بڑھا۔ مگر اچانک پولیس آ گئی اور گولیاں چلنے لگیں۔ جو گنگا رام کے بت کو جوتوں کا ہار پہنا رہا تھا وہ شدید زخمی ہو چکا تھا، اور اب اسے مرہم پٹی کے لیے سر گنگا رام ہسپتال لے جایا جا رہا تھا۔ پہلے حصے میں ہم…