صدر عارف علوی پریشر میں آگئے۔ نوے دن میں الیکشن کرانے کی تاریخ کا اعلان نہ کرسکے۔ عارف علوی سے پی ٹی آئی والوں کو بڑی امیدیں تھیں کہ وہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کردیں گے۔ 9 ستمبر تک صدارتی عہدے کی مدت تو انھوں نے ایسا کوئی اعلان نہیں۔ اب ان کا چیف الیکشن کمیشن کو لکھا گیا خط سامنے آیا تو ہر طرف شور مچ گیا کہ صدر نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کردیا ہے۔ کسی نے کہا صدر نے 6 نومبر کو الیکشن کرانے کی تجویز دی ہے کسی نے بریکنگ چلائی کہ 6 نومبر تک الیکشن کرانے کا کہا ہے۔ خط میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ نہ 6 نومبر کو الیکشن کرانے کا کہا ہے نہ 6 نومبر تک۔ عارف علوی نے تو اچھا بچہ بن کر سب کچھ الیکشن کمیشن پر چھوڑ دیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے نام خط میں انھوں نے 8 پوائنٹ لکھے ہیں جن میں سے 7 فیصلہ یا تجویز نہیں بلکہ بیک گراؤنڈر ہیں۔ مثلاً وہ لکھتے ہیں کہ میں نے نو اگست کو وزیراعظم کے مشورے پر اسمبلی تحلیل کی۔ تو آئین کے آرٹیکل 48(5)کےتحت صدر کا اختیار ہے کہ اسمبلی میں عام انتخابات کےانعقاد کے لیے تحلیل کی تاریخ سے نوے دن کے اندر کی تاریخ مقرر کرے۔ آئین کے مطابق قومی اسمبلی کی تحلیل کے 89ویں دن یعنی 6 نومبر 2023 الیکشن ہوجانے چاہییں۔ میں نے چیف الیکشن کمشنر کو ملاقات کے لیے بلایا مگر انھوں نے جواب دیا کہ یہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔ مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں بھی آئین اور الیکشن ایکٹ کے تحت لازمی ہیں۔ چاروں صوبائی حکومتوں کا بھی خیال ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن آف پاکستان کامینڈیٹ ہے۔
صدر نے مزید لکھا ہے کہ وفاق کومضبوط بنانے،صوبوں کےدرمیان اتحاد اورہم آہنگی کے فروغ اورغیرضروری اخراجات سےبچنےکیلئے قومی اسمبلی اورصوبائی اسمبلیوں کےعام انتخابات ایک دن کرائے جانےپراتفاق ہے۔
یہ سارا بیک گراؤنڈر لکھنے کے بعد صدر نے لکھا ہے کہ تمام نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن صوبائی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت اور اس بات کے پیش نظر کہ کچھ معاملات پہلے ہی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ایک ہی دن انتخابات کرانے کیلئے اعلیٰ عدلیہ سے رہنمائی حاصل کرے۔
یعنی صدر صاحب نے گیند الیکشن کمیشن کے کورٹ میں ڈال دی ہے۔ اب ملک میں الیکشن تبھی ہوں گے جب۔۔۔۔ الیکشن کمیشن چاہے گا۔

شیئر

جواب لکھیں