کیا ملک میں ایک اور وکلا تحریک شروع ہونے جارہی ہے؟ کیا پاکستان میں آئین اور قانون کی بالادستی، انسانی حقوق کے تحفظ اور آئین کے مطابق نوے روز میں انتخابات کے لیے وکلا پھر سڑکوں پر آئیں گے؟ پاکستان کے گھٹے ہوئے سیاسی ماحول میں جہاں ایک مقبول سیاسی جماعت کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ اس کے رہنماؤں اور ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس کے ٹکڑے کیے جارہے ہیں۔ یہ سوال اہمیت رکھتا ہے۔

وکلا نے پاکستان کی سیاسی جدوجہد میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ خصوصا پرویز مشرف جیسے آمر کو بھی وکلا کی تحریک کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے تھے۔ مشرف کے بعد پیپلزپارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی وکلا تحریک کے بعد ہی چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت معزول ججوں کی بحالی کا فیصلہ کیا تھا۔

سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے وکلا نے ایک بار پھر آئین، قانون اور جمہوریت کی بالادستی کے لیے تحریک شروع کردی ہے۔ اس سلسلے میں اسلام آباد میں آل پاکستان لائرز کنونشن اسلام آباد میں منعقد کیا گیا۔

کنونشن میں 14 ستمبر کو ملک بھر میں وکلا کی ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ وکلا 14 ستمبر کو آئین و قانون کی بالادستی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ریلیوں کی صورت میں پرامن احتجاج کریں گے۔

Image

وکلا کنونشن میں مطالبہ کیا گیا کہ آئین کے تحت عام انتخابات کا انعقاد نوے دن میں کرایا جائے۔ پاکستان اس وقت انتہائی نازک حالات سے گزر رہا ہے۔ ملک میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے۔ سیاسی بنیادوں پر گرفتاریاں کی جارہی ہیں۔ ادارے آئین کے تحت انتخابات کرانے سے گریز کر رہے ہیں۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نگراں حکومتیں غیر آئینی ہیں۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ حکومت کا کوئی ادارہ کسی جج کو دباؤ میں لا کر اپنی مرضی کا فیصلہ نہیں لے سکتا۔ دباؤ ڈال کر مرضی کا فیصلہ لینے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ملک بھر کے وکلا آئین کا دفاع اور شہریوں کے حقوق کا تحفظ کریں گے۔

اس کنونشن میں ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنوں کے صدور، عہدے داروں اور نامور وکلا نے شرکت کی۔

اجلاس سے خطاب میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے فیصلے پر تین دن پہلے عمل ہوجاتا ہے جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر تین مہینے بعد بھی عمل نہیں ہوتا۔

بابر اعوان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایشیا میں سب سے زیادہ خواتین سیاسی قیدی پنجاب میں ہیں۔ انھوں نے سپریم کورٹ سے پرزور اپیل کی کہ وہ ان خواتین کو پانچ ماہ سے قید میں رکھے جانے کا نوٹس لیں۔

کنونشن سے لطیف کھوسہ سمیت دیگر وکلا نے بھی پرجوش خطابات کیے۔ لاہور بار ایسوسی ایشن کی نائب صدر ربیعہ باجوہ نے بھی خطاب کیا اور میں باغی ہوں، میں باغی ہوں کے نعرے لگائے۔

تحریک انصاف نے وکلا کنونشن کے اعلامیے کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ترجمان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ دستور کی بالادستی کے لیے بےمثال اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت مؤثر آواز بلند کرنے پر وکلاء برادری تحسین کی مستحق ہے۔ دستور سے انحراف اور جمہوری اقدار کی پامالی نے ہمیشہ ملک کو نقصانات سے دوچار کیا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ بنیادی حقوق کے تحفّظ کے لیے بار کا آگے بڑھ کر بنچ کو تقویت فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت، پاکستان کو لاقانونیّت کی آگ سے بچانے کے لیے اہم ہے۔ عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنے کی ریاستی کوششوں کیخلاف فیصلہ کن مزاحمت میں آگے بڑھ کر اپنے وکلاء کا ساتھ دیں گے۔

ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئین کی بالادستی، بنیادی انسانی حقوق اور جمہوریت پر یقین رکھنے والے طبقات اور سول سوسائٹی بھی قدم آگے بڑھائیں اور ملک کو لاقانونیت کے جہنم میں جھونکنے کی ریاستی کوششوں کی مزاحمت کریں۔

شیئر

جواب لکھیں