آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ پی ڈی ایم حکومت کے خلاف چارج شیٹ ہے۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ 15 مئی کو پی ڈی ایم کا سپریم کورٹ کے باہر مظاہرہ جارحانہ تھا جس میں چیف جسٹس آف پاکستان کو سنگین دھمکیاں دی گئی۔ وفاقی حکومت کی مدد سے پاور شور عدلیہ کی آزادی پر براہ راست حملہ تھا۔

یہ بات آڈیو لیکس کمیشن پر اعتراض کے کیس کے فیصلے میں کہی گئی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کا 6 جون کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کی صداقت کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے تین ججوں پر مشتمل کمیشن کے قیام کے خلاف درخواست سننے والے بینچ پر پی ڈی ایم حکومت کے اعتراضات مسترد کردیے ہیں۔

پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے بینچ میں شامل تین جج صاحبان چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر اعتراضات کیے گئے تھے اور مفادات کے ٹکراؤ پر ان کی بینچ سے علیحدگی کے لیے متفرق درخواست دائر کی تھی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا تحریر کردہ 32 صفحات کا فیصلہ پڑھ کر سنایا جس میں سابقہ پی ڈی ایم حکومت پر سخت تنقید کی گئی ہے۔

 فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ڈی ایم کی جانب سے تین ججوں پر اٹھائے گئے اعتراضات کی  کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ اعتراض کا مقصد بنچ ارکان کو ہراساں کرنا اور چیف جسٹس پاکستان کو بنچ سے الگ کرنا تھا۔ متفرق درخواست عدلیہ پر حملہ ہے جو مسترد کی جاتی ہے۔ درخواست مذموم مقاصد کے لیے دائر کی گئی۔  وفاقی وزرا نے مختلف مقدمات سننے والے ججوں کے خلاف بیان بازی کی  اور اشتعال انگیزبیانات دیے۔ سپریم کورٹ نے وفاقی وزرا کے اس رویے کو صبرو تحمل سے برداشت کیا۔

Raftar Bharne Do

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت وفاقی حکومت نے مختلف چالوں اورحربوں سے عدالتی فیصلوں میں تاخیرکی اور وفاقی حکومت نے عدالت کی بے توقیری کی۔ یہ سلسلہ مارچ 2023 میں شروع ہوا جب پنجاب میں الیکشن کے فیصلے پر کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے 4 تین سے اسپیکر کی درخواست مسترد کردی۔ وفاقی حکومت نے 4 اپریل کا سپریم کورٹ کا فیصلہ چیلنج کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل کے پیچھے چھپنے کا راستہ اختیار کیا۔

Raftar Bharne Do

فیصلے میں کہا گیا ہےکہ 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کے عدالتی حکم کے خلاف سپریم کورٹ کے باہر مظاہرہ کیا گیا۔ تشویش ناک پہلو یہ تھا کہ اس مظاہرے کے لیے حکومت نے اتحادیوں کی مدد کی۔ اس مظاہرے کا مقصد عدالت اور ججوں پر دباؤ ڈالنا تھاکہ حکومت کے حق میں فیصلہ دیں یا کوئی بھی فیصلہ نہ کریں۔ وفاقی حکومت کی مدد سے پاورشو عدلیہ کی آزادی پر براہ راست حملہ تھا۔

Raftar Bharne Do

چیف جسٹس پاکستان نے لکھا ہے کہ کسی بھی حتمی عدالتی فیصلے کی پابندی لازم ہے۔ فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے پر آئین میں نتائج دیے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت نے عدالتی فیصلوں پر عدم تعاون کیا مگر سپریم کورٹ نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی۔

آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل کو چیلنج کرنے والی چار درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے کی۔ جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل تھے۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے حامی اس فیصلے کے بعد بھی چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر تنقید کر رہے ہیں۔ ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے ایکس پر پیغام میں لکھا کہ عمر عطا بندیال صاحب اور ہم خیالوں نے ساس کی خاطر عدلیہ کی ساکھ قربان کر دی۔

شیئر

جواب لکھیں