تاریخ پہ تاریخ، تاریخ پہ تاریخ۔ اتنی تاریخیں شاید فلم میں عدالت نے سنی دیول کو نہیں دی ہوں گی جتنی تاریخیں نواز شریف کی واپسی کی دی گئی ہیں۔ ویسے بڑے میاں صاحب تو خود عدالت کو تاریخ دے کر گئے تھے کہ چار ہفتوں میں علاج کرواکے واپس آجاؤں گا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن کئی چار ہفتے آئے اور چلے گئے۔ مگر نواز شریف وطن واپس نہ آئے۔

پہلے تو عمران خان کا ڈر تھا، دعوے تو بلند بانگ کیے گئے کہ نواز شریف جیل جانے سے نہیں ڈرتے وہ واپس آکر پہلے جیل جائیں گے پھر سزا کے خلاف اپیل کریں گے۔ مگر عمران خان کے دور میں نہ ان کو آنا تھا نہ آئے۔

اپریل 2022 میں پی ڈی ایم نے جوڑ توڑ کرکے عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے نکال دیا۔ نواز شریف کے ضمانتی شہباز شریف وزیراعظم بن گئے۔ امید تھی کہ چھوٹے میاں صاحب اپنے اسٹیمپ پیپر کی لاج رکھتے ہوئے علاج کے لیے گئے نواز شریف کو وطن واپسی پر آمادہ کرلیں گے کیونکہ وہاں علاج ولاج تو کچھ ہو نہیں رہا تھا ہاں نواز شریف کی گھومنے پھرنے، ریستورانوں میں کھانے پینے کی ویڈیو ضرور آتی رہیں۔ بڑے میاں صاحب  پچھلے سال عمرہ کرنے سعودی عرب بھی گئے مگر وہاں سے دوبارہ لندن لوٹ گئے۔

اس سال بھی نواز شریف حج کرنے گئے، اس کے بعد سیاسی ملاقاتوں کے لیے دبئی میں ڈیرے ڈالے مگر اتنے قریب آکر بھی دوبارہ ہزاروں میل دور نکل لیے۔

Nawaz Sharif, PML-N, economic turmoil

ادھر لیگی کارکن شیر آیا، شیر آیا کے نعرے لگا لگا کر ہلکان ہوتے رہے مگر سیاسی سرکس میں ابھی شیر کی انٹری کا وقت نہیں ہوا تھا۔ پھر 9 مئی اور پھر 5 اگست ہوگیا، مریم نواز کی لیول پلیئنگ فیلڈ کی خواہش پوری ہوگئی۔ 2018 میں شیر کا شکار کرنے والے عمران خان کو قید کردیا گیا۔

پھر زور و شور سے ڈھنڈورا پیٹا جانے لگا کہ نواز شریف تشریف لا رہے ہیں۔ مگر ابھی دلی دور تھا۔ 9 اگست کو شہباز سرکار نے اسمبلی تحلیل کردی تاکہ نئے الیکشن کے لیے کم از کم 3 مہینے مل جائیں۔ 11 اگست کو سپریم کورٹ نے سابق حکومت کا منظور کردہ قانون ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز کالعدم قرار دے دیا۔ عدالت نے کہا کہ حکومت کوئی قانون سازی کرنے کا آئینی اختیار نہیں تھا۔ اس قانون کی رو سے سپریم کورٹ کے سو موٹو کیس میں سزا پانے والے افراد نظرثانی کی اپیل کرسکتے تھے۔ اس قانون سے سب سے زیادہ فائدہ نواز شریف اور جہانگیر ترین کو ہوتا جنھیں سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا ہے۔ نواز شریف کو تو سزا بھی سنائی گئی تھی اور وہ علاج کے نام پر ہی جیل سے باہر آئے اور پھر لندن گئے تھے۔

نواز شریف کب واپس آئیں گے؟

پلان تو یہی تھا کہ نواز شریف ستمبر میں واپس آتے، عدالت میں نظرثانی کی اپیل دائر کرتے جس میں انھیں ریلیف مل جاتا اور اس طرح نومبر میں ہونے والے الیکشن میں انتخابی مہم کی قیادت وہ کرتے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اس پلان پر پانی پھیر دیا۔ اب خواجہ آصف نے صاف کہہ دیا ہے کہ جب تک ’رسک‘ زیرو نہیں ہوجاتا نواز شریف کی واپسی کا نہیں سوچیں گے۔

جیو نیوز کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’نواز شریف وطن واپس ضرورآئیں گے مگر ہم نہیں چاہتے کہ کوئی ان کے خلاف اسکور سیٹل کررہا ہو یا عدلیہ کوئی ایسا فیصلہ دے اس لیے ان کے خلاف تمام رسک زیرو کرکے انھیں وطن واپس لایا جائے گا۔‘

یعنی مسلم لیگ ن انتظار کر رہی ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال ستمبر میں ریٹائر ہوجائیں اور قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس لگ جائیں اس کے بعد ہی نواز شریف واپس آئیں گے۔ اس پر جی ڈی اے کی رہنما سائرہ بانو نے دلچسپ فقرہ بھی کسا تھا کہ دنیا حضرت عیسیٰ کا انتظار کر رہی ہے اور ن لیگ والے قاضی عیسیٰ کا۔

شہباز شریف تو ابھی تک یہی کہہ رہے تھے کہ نواز شریف ستمبر میں واپس آجائیں گے لیکن خواجہ آصف کے بعد نواز شریف کے قریبی سمجھے جانے والے میاں داؤد نے بھی کہہ دیا ہے کہ نواز شریف ستمبر میں نہیں آئیں گے۔
یعنی ن لیگ کو یہ بھی ڈر ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کی عدالت سے بھی مطلوبہ ریلیف نہ ملا تو پھر کیا ہوگا۔ مسلم لیگ ن اس لیے قاضیٰ فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کے بعد حالات کا جائزہ لے گی۔ ڈوریاں ہلائے گی، معاملات خوش اسلوبی سے طے پاگئے تو میاں صاحب واپس آجائیں گے ورنہ لندن میں رہ کر ہی پارٹی چلاتے رہیں گے۔

شیئر

جواب لکھیں