بھارت کے قدم خلا میں مزید آگے بڑھتے جا رہے ہیں اور اب اس نے اپنا ایک اور ایسا سیٹیلائٹ خلا میں بھیج دیا ہے جو جیوسنکرونس سیٹلائٹ لانچ وہیکل (GSLV)   پروجیکٹ  کا حصہ ہے۔

یہ منصوبہ انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) نے 1990ء میں شروع کیا تھا تاکہ بھارت مصنوعی سیاروں کو خلا  کے جیو سنکرونس  ٹرانسفر آربٹ (Geosynchronous Transfer Orbit)میں بھیجنے کی صلاحیت حاصل کر سکے۔ 

اس راکٹ کو اسرو کے ایک اور پروگرام 'پولر سیٹلائٹ لانچ وہیکل' (PSLV)  سے اپگریڈ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ پی ایس ایل وی  بھارت کے ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ کو سن سنکرونس آربٹ  میں بھیجنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا  ۔ یہ سروس اس سے پہلے صرف روس ہی کمرشل سطح پر فراہم کرتا تھا۔

پی ایس ایل وی چھوٹے مصنوعی سیاروں کو جیو اسٹیشنری ٹرانسفر آربٹ  (GTO) میں بھی پہنچا سکتا ہے۔ اسرو نے   پی ایس ایل وی   کے پہلے لانچ کے بعد ہی چھوٹے مصنوعی سیاروں کو خلا میں بھیجنے کے لیے سستی اور معیاری  خدمات فراہم کرنا شروع کر دی تھیں اور  اب تک 36 ممالک کے 345 مصنوعی سیاروں کو خلا میں بھیج چکا ہے جن امریکہ بھی شامل ہے۔ 2017 میں اس راکٹ کے ذریعے بھارت نے سب سے زیادہ 104 مصنوعی سیارے  خلا میں بھیجنے کا ریکارڈ بنایا تھا جسے بعد میں اسپیس ایکس نے 2021 میں 143 مصنوعی سیارے  بھیج کر اب اپنے نام کر لیا۔

تو ہم بات کر رہے تھے جی ایس ایل وی کی، جسے جیو سنکرونس ٹرانسفر آربٹ میں سیٹلائٹ  بھیجنے کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔ یہ راکٹ تین اسٹیجز پر مشتمل ہے اور  اس آربٹ میں سیاروں کو پہنچانے کے لیے   زیادہ طاقت  توانائی  صرف کرائیوجینک انجن سے ہی مل سکتی تھی جس کی ٹیکنالوجی بھارت کے پاس نہیں تھی۔

کرائیو جینک انجن کے لیے بھارت نے روس کا رخ کیا اور 1991 میں ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی کا معاہدہ کیا لیکن روس اگلے سال ہی  امریکہ کی طرف سے اعتراض اٹھائے جانے کے بعد کہ یہ 'میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول ریجیم' معاہدے کی خلاف ورزی ہے، پیچھے ہٹ گیا۔ اس کے بعد اسرو نے 1994ء میں 'کرائیوجینک اپر اسٹیج پروجیکٹ' کا آغاز کیا تاکہ کرائیوجینک انجن خود بنایا جاسکے۔

گو کہ 18 اپریل 2001 کو جی ایس ایل وی کی پہلی اڑان  میں ایک روسی ساختہ انجن استعمال کیا گیا لیکن اس کے بعد کی جانے وہی تمام 14 پروازوں میں مقامی بھارتی کرائیوجینک انجن استعمال کیا گیا ہے۔

جی ایس ایل وی فیملی کے راکٹوں کو اب تک 15 مرتبہ لانچ کیا جا چکا ہے جس میں سے 9 کامیاب رہے جبکہ 4 مرتبہ ناکامی اور 2 بار جزوی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ابھی حال ہی میں اسرو نے 29 مئی 2023 کو ایک جی ایس ایل وی–ایف  12 راکٹ کو ستیش دھاون اسپیس سینٹر ، سری ہری کوٹہ سے  کامیابی سے لانچ کیا ہے۔  اور اس کے ذریعے این وی ایس-1 نامی سیکنڈ جنریشن نیوی گیشن سیٹلائٹ کو جی ٹی او آربٹ میں پہنچایا ہے۔

این وی ایس-1، ایل-1، ایل-5 اور ایس بینڈ نیوی گیشن سسٹم پر مشتمل ہے۔ ساتھ ہی اس میں ایٹمی گھڑی  بھی ہے  جسے اسپیس اپلیکیشن سینٹر احمد آباد نے مقامی طور پر تیار کیا ہے۔

اسرو نے این وی ایس-1 کو بھارت کے ناوک سسٹم (NavIC: Navigation with Indian Constellation) کے لیے تیار کیا ہے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ ناوک دراصل امریکی جی پی ایس کا نعم البدل ہے۔

کارگل جنگ کے دوران جب امریکہ نے بھارت کو جی پی ایس نظام کے فوجی استعمال کی اجازت نہیں دی تو اسے اپنا جی پی ایس نظام بنانے کا خیال آیا تاکہ مستقبل میں کسی فوجی کاروائی کے دوران امریکہ یا کسی اور ملک پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ ناوک ہندی زبان کا ایک لفظ بھی ہے جس کا مطلب 'ملاح' کے ہیں۔ اس نظام کے اب تک 9 مصنوعی سیارے خلا میں بھیجے جا چکے ہیں۔ یہ نظام بھارت کے اردگرد تقریباً 1500 کلومیٹر کے علاقے کا احاطہ کرتا ہے۔

بھارت کی خلائی سائنس میں ان تمام کامیابیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا بالکل بھی غلط نہ ہوگا کہ  بھارت خلائی ٹیکنالوجی میں پاکستان سے تو کہیں آگے ہے ہی بلکہ اس میں ترقی یافتہ ممالک کی مسابقت کرتا نظر آتا ہے ۔

شیئر

جواب لکھیں