یہ محض اتفاق تھا یا پوری منصوبہ بندی؟ ترکیہ میں صدارتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ عین اُسی دن منعقد ہوا جب ترک قوم فتحِ قسطنطنیہ منا رہی تھی، آج کی زبان میں کہیں تو جشنِ فتحِ استنبول کی 570 ویں سالگرہ تھی۔ 29 مئی 1453 وہ تاریخی دن تھا، جب مسلمانوں نے 700 سال کی طویل جدوجہد کے بعد بالاخر قسطنطنیہ فتح کیا۔ اس لشکر کی قیادت 21 سالہ عثمانی سلطان محمد فاتح کر رہے تھے، جن کی فتح کے ساتھ ہی 27 قبل مسیح میں قائم ہونے والی رومن امپائر اپنے انجام کو پہنچی، 1480 برس بعد اور پھر آئندہ چار صدیوں تک عثمانی سلاطین نے بڑے ٹھاٹھ سے دنیا پر حکمرانی کی۔ رجب طیب ایردوان نے جیت کے بعد پہلے خطاب میں اپنی فتح کو فتح استنبول سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ

'' فتح استنبول ہماری تاریخ میں ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا جس نے ایک صدی کو ختم کیا اور ایک نئے باب کی شروعات کی ۔ مجھے یقین ہے کہ یہ الیکشن بھی ویسا ہی ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے۔''

جوشِ خطابت یا زمینی حقیقت؟

رجب طیب ایردوان جو کچھ کہہ رہے ہیں یہ فقط جوش خطابت یا اپنی حامیوں کی دل جوئی کے لیے نہیں بلکہ زمینی حقیقت ہے۔ ایردوان گزشتہ 21 برسوں سے ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں لیکن جن چیلنجز کا سامنا ملک اس وقت کر رہا ہے، اُن سے ایردوان جیسی مضبوط اعصاب کی مالک شخصیت ہی نمٹ سکتی ہے، ایسی شخصیت جس کے پیچھے جان نچھاور کرنے والے حامیوں کی فوج ہو ۔ 2016 میں اُن کے خلاف بغاوت ناکام ہوئی، جب رات کے اندھیرے میں فوج کے ایک دھڑے نے اقتدار پر قبضے کی کوشش کی لیکن عین وقت پر عوام سڑکوں پر نکل آئے اور ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ اس دن کے بعد ترک صدر نے بھی وہی کیا جو اقتدار میں رہنے کے لیے ضروری تھا، اپنی مضبوطی کے لیے جو جو ترامیم آئین میں درکار تھیں، کر ڈالیں۔

ترکی ایک دوراہے پر؟

ترکی انتخابات

رجب طیب ایردوان کی قیادت میں ترکیہ 'مردِ بیمار' سے ایک طاقتور اور ترقی یافتہ ملک بن کر ابھرا۔ ملک آج ایک ایسے سنگم پر کھڑا ہے جہاں اُس کے ایک طرف امریکا اور یورپی اتحاد ہے تو دوسری طرف چین اور روس ۔ امریکا اور یورپ کی خواہش ہے کہ وہ چین اور روس سے مکمل قطع تعلق کر کے اُن کے بلاک کا حصہ بن جائے لیکن ترکیہ ایسا نہیں کر رہا۔ وہ نیٹو کا رکن بن کر یورپ سے بھی مراعات لے رہا ہے اور مشرق کی طرف بھی اُس کی نگاہیں ہیں ۔ ایک ایسا وقت یوکرین جنگ کی وجہ سے یورپی یونین روس پر پابندیاں لگا رہی ہے، ترکیہ ماسکو کے ساتھ تعلقات بڑھا رہا ہے۔

‏2017 میں انقرہ کا روس کے ساتھ کیا گیا ایس-400 میزائل ڈیفنس سسٹم معاہدہ یورپ کو ایک آنکھ نہیں بھاتا لیکن اس باوجود یورپی اتحاد ترکیہ سے تعلقات بگاڑنے کو تیار نہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ ترک صدر یوکرین جنگ میں ثالث کا کردار ادا کر چکے ہیں۔ گزشتہ برس بحیرہ اسود سے گندم کی تجارت برقرار رکھنے کے حوالے سے بھی انھوں نے مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ترکیہ کی خواہش ہے کہ وہ نیٹو میں خود کو اہم رکن کے طور پر منوائے، ایسا رکن جو روس اور مغرب کے درمیان فاصلے کم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف روس اور یوکرین بلکہ برطانیہ، فرانس، یورپی یونین اور مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک نے ہی انھیں جیت کی مبارکباد دی ہے، جو اُن کی کامیاب خارجہ پالیسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

آج کا ترکی

Raftar Bharne Do

رجب طیب ایردوان اپنے نئے دور کا آغاز ایک ایسے وقت کر رہے ہیں جب ترک قوم زخموں سے چُور ہے۔ رواں سال 6 فروری کو 7.8 شدت کے تباہ کن زلزلے میں کم از کم 30 ہزار سے زائد افراد جاں بحق اور لاکھوں زخمی ہوئے جبکہ انفراسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ ایردوان پر یہ الزام لگا کہ زلزلے کے دوران اُن کی حکومت ہنگامی حالت سے نمٹنے میں ناکام رہی ۔ زلزلہ زدگان کی بحالی کے علاوہ ڈالر کی بڑھتی قدر اور افراط زر میں اضافہ بھی ایردوان حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے، جس نے پاکستانیوں کی طرح ترکوں کو بھی تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے۔ اس وقت ایک امریکی ڈالر بلند ترین سطح 21 لیرا پر ٹریڈ کر رہا ہے جبکہ افراط زر کی شرح 43 فیصد ہے۔

تباہ کن زلزلے اور افراطِ زر میں اضافے کے اثرات الیکشن پر بھی اثر انداز ہوئے اور گزشتہ 21 برسوں کی نسبت رجب طیب ایردوان کو اس بار سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔ پہلے مرحلے میں دونوں اُمیدوار مقررہ 50 فیصد ووٹ حاصل نہ کرسکے جس کے بعد دوسرا مرحلہ ہوا۔ اس میں بھی فتح کا تناسب کچھ زیادہ نہیں ۔ طیب ایردوان کو 52.16 فیصد جبکہ اُن کے حریف قلیچ دار اوغلو کو 47.86 فیصد ووٹ ملے۔

جمہوریت کے 100 سال

اس سال ترکی جدید جمہوریہ ترکی کی 100 ویں سالگرہ منا رہا ہے۔ جس کی بنیاد سلطنت عثمانیہ کی فوج کے سابق کمانڈر مصطفیٰ کمال اتاترک نے 1923 میں رکھی تھی ۔ صدر رجب طیب ایردوان نے جیت کے بعد اپنے حامیوں سے خطاب میں حالیہ انتخابات کو ترکیہ کی تاریخ کا اہم ترین چناؤ قرار دیا ۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ وقت اکٹھے ہوکر کام کرنے کا ہے۔ ہماری اولین ذمہ داری ان شہروں کی آبادکاری ہے جو 6 فروری کے زلزلے میں تباہ ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ لوگوں زندگیوں میں بہتری لانا بھی ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔

اگلے 5 سال، نئی صدی کا پہلا پڑاؤ

رجب طیب ایردوان ترکیہ کو دوبارہ کو سلطنت عثمانیہ جیسا عروج دلانا چاہتے ہیں، اُن کے قول و فعل سے اکثر اوقات یہ محبت جھلکتی نظر آتی ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے قیام کی جدوجہد پر مبنی ڈرامہ سیریل ارطغرل غازی اور کورولوس عثمان بھی انھی کی ہدایت پر تیار کیا گیا، جو نہ صرف ترکیہ بلکہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقبول ہوا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے پانچ برسوں میں عالمی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور ایردوان کا یہ دعویٰ کہ یہ الیکشن فتح استنبول جیسا ٹرننگ پوائنٹ ہے، سچ ثابت ہوتا ہے یا نہیں ۔

تحریر: محمد زبیر

شیئر

جواب لکھیں