پاکستان یہاں ایشیا کپ اور ورلڈ کپ کے معاملے پر بھارت کے ساتھ الجھا ہوا ہے جبکہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل میں ایک الگ کہانی چل رہی ہے۔ جہاں آئی سی سی کی آمدنی کو تقسیم کرنے کے لیے ایک نئے ماڈل پر کام ہو رہا ہے، جس پر پاکستان کے سابق کرکٹر راشد لطیف سخت تنقید کر رہے ہیں۔

سابق وکٹ کیپر کپتان کا کہنا ہے کہ آئی سی سی کے تمام ٹورنامنٹس میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا مقابلہ پاک-بھارت میچ ہوتا ہے، اس لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کو آئی سی سی سے اپنا حصہ بڑھانے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ بلکہ مشورہ دیا ہے کہ پاکستان کا حصہ 5.75 نہیں بلکہ 18 سے 20 فیصد ہونا چاہیے۔

راشد لطیف نے اپنی رائے کے حق میں گزشتہ 12 سال میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے آئی سی سی میچز کا حوالہ بھی دیا ہے جس کے مطابق 2011 اور 2015 کے ورلڈ کپ، 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی اور 2021 اور 2022 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں کھیلے گئے پاک بھارت مقابلوں کو اربوں لوگوں نے دیکھا اور اسی کو بنیاد بناتے ہوئے وہ کہہ رہے ہیں کہ آئی سی سی کی آمدنی میں پاکستان کا حصہ اس سے کہیں زیادہ بنتا ہے۔

لیکن کیا راشد لطیف کا یہ نظریہ ٹھیک ہے؟ کیا وہ اس بات پر غور نہیں کر رہے کہ ان کے پیش کیے گئے تمام میچز میں مشترکہ عنصر پاکستان نہیں بلکہ بھارت ہے؟ اور اس سوال کا جواب کیوں نہیں دیا گیا کہ بھارت کے سوا دیگر ٹیموں سے کھیلے گئے پاکستان کے میچز کو کتنی ویور شپ ملی؟

نیا ریونیو ماڈل ہے کیا؟

یہ تمام سوالات اور راشد لطیف کا نظریہ اپنی جگہ لیکن آپ آئی سی سی کا یہ مجوزہ ماڈل دیکھیں تو شاید آپ پر بہت کچھ واضح ہو جائے۔ یہ ماڈل چار بنیادوں پر بنایا گیا ہے: ایک ملک کی کرکٹ تاریخ، گزشتہ 16 سالوں میں مردوں اور عورتوں دونوں کے آئی سی سی ایونٹس میں کارکردگی، آئی سی سی کی کمرشل آمدنی میں حصہ اور مکمل رکن (فل ممبر) کی حیثیت سے برابر کا حصہ۔ واضح ہے کہ کمرشل آمدنی میں حصے والی بات ہی ہے جو بھارت کو باقی ملکوں بہت آگے لے گئی ہے کیونکہ انٹرنیشنل کرکٹ کی آمدنی کا 70 سے 80 فیصد بھارت سے آتا ہے۔

یہ ماڈل ابھی تک منظور تو نہیں ہوا، لیکن اندازہ یہی ہے کہ 2024 سے 2027 کے لیے جلد ہی اسے قبول کر لیا جائے گا۔ ان سالوں میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اندازاً 600 ملین ڈالرز کی سالانہ آمدنی حاصل کرے گی۔ اس آمدنی کا بڑا حصہ میڈیا رائٹس سے حاصل ہوگا اور ان سے حاصل ہونے والی بڑا حصہ انڈین مارکیٹ سے ملتا ہے۔ یوں بھارت کو ہر سال آئی سی سی سے ملیں گے 231 ملین ڈالرز۔

کس کو کیا ملے گا؟

یہ کتنی بڑی رقم ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ دوسرے نمبر پر موجود انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کو سالانہ صرف 41.33 ملین ڈالرز ملیں گے۔ جو آئی سی سی کی سالانہ آمدنی کا صرف 6.89 فیصد ہوگا، یعنی بھارت کے مقابلے میں پانچویں حصے سے بھی کم۔ پھر کرکٹ آسٹریلیا ہے جسے 37.5 ملین ڈالرز ملیں گے، یعنی آئی سی سی کی کُل سالانہ آمدنی کا محض 6.25 فیصد۔

جب بھارت، انگلینڈ اور آسٹریلیا نے  2015 سے 2023 کے عرصے کے لیے 'بگ تھری' پر اتفاق کیا تھا تو 8 سال کے لیے انگلینڈ کا حصہ 143، آسٹریلیا کا 132 اور بھارت کا 405 ملین ڈالرز تھا۔ اب اس نئے منصوبے کے تحت انگلینڈ کو 139 اور آسٹریلیا کو 128 ملین ڈالرز ملیں گے، یعنی ان کی آمدنی میں زیادہ کمی نہیں آئے گی۔ لیکن بھارتی کرکٹ بورڈ 293 ملین ڈالرز تک محدود رہے گا، جو بہت زیادہ تو ہیں لیکن 'بگ تھری' کے مقابلے میں کچھ نہیں۔

پاکستان کو کیا حاصل ہوگا؟

نئے مجوزہ ماڈل کے تحت چوتھے نمبر پر پاکستان ہوگا، جسے ہر سال 34.51 ملین ڈالرز ملیں گے۔ یہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی سالانہ آمدنی کا 5.72 فیصد بنتے ہیں۔ ٹاپ تھری کے بعد صرف پاکستان ہی ایسا ملک ہے جس کو 30 ملین ڈالرز سے زیادہ کی ادائیگی ہوگی، باقی نیوزی لینڈ، ویسٹ انڈیز، جنوبی افریقہ سمیت کسی کرکٹ بورڈ کو اتنے پیسے نہیں ملیں گے۔ آئی سی سی کے 12 فل ممبرز میں آخری نمبر پر زمبابوے ہوگا جسے 17.64 ملین ڈالرز حاصل ہوں گے۔

آئی سی سی 96 ایسوسی ایٹ ملکوں کو 67.16 ملین ڈالرز تھے، یعنی سب کو تقریباً 7 لاکھ ڈالرز حاصل ہوں گے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ چاہے فٹ بال کے بعد کرکٹ دنیا کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا کھیل ہو، لیکن جہاں تک بات ہو پیسوں کی تو کرکٹ بہت بہت پیچھے ہے۔

شیئر

جواب لکھیں