ہر سال یکم مئی پر مزدوروں کا عالمی دن پاکستان میں بھی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے لیکن لیبر ڈے منایا کیوں جاتا ہے؟ اس دن ہوا کیا تھا یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔

کہانی دراصل یہ ہے کہ یورپ اور امریکا میں جب سرمایہ دارانہ نظام نے قدم جمائے تو سارا بوجھ مزدوروں پر پڑا۔ مزدوروں کے ساتھ رویہ کچھ یوں تھا کہ ان کے کام کے اوقات بھی طے نہیں تھے کبھی ان سے 12 گھنٹے تو کبھی 14 گھنٹے اور کبھی تو 18 گھنٹے تک کام لیا جاتا تھا۔ ظلم مزید یہ کہ انھیں کوئی چھٹی بھی نہیں دی جاتی تھی۔ ورک پریشر کی وجہ سے مزدور بیمار ہوجاتے، بیماری سے انتقال کرجاتے یا پھر اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔

مزدور بیچارے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے اور اپنے گھر کا چولھا جلانے کی خاطر سرمایہ داروں کے ظلم کو برداشت کرتے ہی ساتھ ساتھ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا بھی جرم سمجھتے تھے۔

بالآخر دنیا بھر میں مزدوروں نے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بغاوت کرنی شروع کردی۔ سب سے پہلے برطانیہ میں مزدور یونینیں بنیں اس کے بعد امریکا میں بھی مزدوروں کی تنظیمیں قائم ہوگئیں۔

کہانی میں کلائمکس آیا یکم مئی 1886 کو۔ امریکا میں اُن دنوں سرکاری ملازموں کے کام کا دورانیہ 8 گھنٹے مقرر کردیا گیا تھا لیکن صنعتی مزدوروں کو اس حق سے محروم رکھا گیا تھا۔ مزدوروں کی تنظیم امریکن فیڈریشن آف لیبر نے اس کے خلاف پورے ملک میں احتجاج کا اعلان کیا۔ یکم مئی کو امریکا بھر میں ساڑھے تین لاکھ مزدور سڑکوں پر نکل آئے۔ لیکن اس احتجاج کا مرکز شکاگو تھا جہاں مزدوروں سے 14 گھنٹے کام لیا جاتا تھا۔ شکاگو کی مزدر یونینوں نے مطالبات مانے جانے تک ہڑتال کا اعلان کردیا۔ دو دن تک جاری رہنے والی یہ ہڑتال نہایت کامیاب اور پرامن رہی۔ لیکن سرمایہ دار بات سننے تک کو تیار نہ تھے۔ 3 مئی کو پولیس نے ایک فیکٹری کے باہر اندھادھند فائرنگ کی جس میں چھ مزدور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

مرنے والوں سے اظہار یکجہتی اور اپنے مطالبات کے لیے اگلے دن 20 ہزار سے زیادہ مزدور شکاگو کی "ہے مارکیٹ" میں احتجاج کے لیے جمع ہونے لگے ۔ بے بس مزدور بس اتنا چاہتے تھے کہ ان کے کام کے اوقات 8 گھنٹے کر دیے جائیں۔۔ اس مظاہرے کے دوران کسی نامعلوم شخص نے پولیس پر ڈائنامائٹ بم پھینکا جس سے ایک اہلکار ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے۔ افراتفری پھیلی تو پولیس نے مظاہرین پر گولیاں برسادیں۔ فائرنگ کی آواز کم ہوئی تو آہوں سسکیوں نے خبر دی کہ 38 مزدور مارے جاچکے ہیں اور سیکڑوں زخمی ہیں۔ کہانی یہاں ختم نہ ہوئی سرمایہ داروں کے زیر اثر پولیس نے گھر گھر چھاپے مارے اور کئی مزور رہنماوں کو گرفتار کرلیا۔

مقدمات چلتے گئے، عدالتوں کے چکر لگتے گئے، لیکن وہی بات "ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں"  11 نومبر 1887 کو مزدور رہنما اینجل ، فشر ، پارسن اور اسپائز کو پھانسی دے دی گئی۔ تختہ دار کی زینت بننے والے مزدور رہنما کہا کرتے تھے کہ

غریب انسانوں کی آواز بلند ہونے دو ورنہ ان کی تلواریں بلند ہوں گی

فشر نے کہا “ہم خوش ہیں کہ ہم ایک اچھے مقصد کے لیے جان دے رہے ہیں۔"

اس افسوس ناک واقعے کے بعد مزدوروں کو کچھ حقوق ملے جس کا فائدہ ہم تک بھی پہنچا۔  جیسے مزدوروں کے ورکنگ آورز  8 گھنٹے کردیے گئے۔ ہفتے میں ایک دن چھٹی لازمی قرار پائی اور مزدوروں کو لیبر یونین کا حق مل گیا۔ خواتین مزدوروں کے لیے دوران حمل خصوصی چھٹیوں کا قانون بنایا گیا۔

یہ تھی وہ کہانی جس کی وجہ سے ہم یومِ مزدور منا رہے ہیں۔ یا پھر یوں کہیں کہ صرف چھٹی انجوائے کر رہے ہیں کیونکہ مزدور تو چھٹی والے دن بھی کام کی تلاش میں ہے۔

شیئر

جواب لکھیں