ترکی نے 2022 میں دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ سونا خریدا تھا، لیکن اب اتنی ہی تیزی سے بیچ بھی رہا ہے۔

ملک نے 2022 میں معیشت کو مستحکم کرنے اور مہنگائی کو روکنے کے لیے بڑی مقدار میں سونا خریدا تھا۔ سرکاری ذخائر 148 ٹن اضافے کے ساتھ ریکارڈ 572 ٹن تک پہنچ گئے تھے۔ لیکن مارچ 2023 میں 15 ٹن سونا بیچنے کے بعد مرکزی بینک نے اپریل میں مزید 81 ٹن سونا بیچ ڈالا۔ اب ترکی کے سونے کے ذخائر 491.2 ٹن رہ گئے ہیں۔

لیکن ایسا کیوں؟ معیشت کو سنبھالنے کے لیے بڑے پیمانے پر سونا خریدنے کے بعد آخر اچانک بیچنے کی نوبت کیوں پیش آئی؟ اس کی وجہ ہے مقامی سطح پر سونے کی بڑھتی ہوئی طلب اور ان مشکل حالات میں امپورٹ یعنی درآمد کو محدود کرنے کی کوششیں۔

جی ہاں! ورلڈ گولڈ کونسل کے مطابق ترکی نے یہ سونا مقامی مارکیٹ کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بیچا ہے۔

ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ ملک کے فارن کرنسی ذخائر بھی کم ہو رہے ہیں۔ مارچ کے مقابلے میں مئی تک اِن میں 15 فیصد کی کمی آئی ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کرنسی کی قدر گرنے کی وجہ سے سونا خریدنے کا رجحان بہت تیزی سے بڑھا ہے۔ اس صورت حال میں ترکی سونے کی طلب پوری کرنے کے لیے امپورٹ پر اپنا قیمتی زرِ مبادلہ خرچ نہیں کر سکتا تھا۔

ترکی نے ابتدا میں سونے کی درآمد پر پابندی تو لگائی، لیکن معاملات قابو میں نہیں آئے۔ بالآخر مرکزی بینک نے اپنا سونا نکالنا شروع کر دیا تاکہ یہ طلب پوری کی جا سکے۔ اس کا ترکی کو بہت فائدہ ہوا ہوگا کیونکہ پچھلے سال کے مقابلے میں سونے کی قیمت میں مقامی سطح پر 85 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ اگر ترکی یہ سونا عالمی مارکیٹ میں بیچتا تو اس کا ترک کرنسی کو بہت نقصان پہنچا، لیکن مقامی مارکیٹ میں بیچنے سے بڑا فائدہ ہوگا۔

یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب ملک میں صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں کسی امیدوار کے 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کر پانے کے بعد اب 28 مئی کو دوسرا اور حتمی مرحلہ ہوگا، جس میں صدر رجب طیب اردوغان اور کمال قلیچ دار اوغلو کا براہ راست مقابلہ ہوگا۔

شیئر

جواب لکھیں