عمران خان کو آج بھی رہائی نہیں مل سکی۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی اور دیگر درخواستوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جو کل صبح 11 بجے سنایا جائے گا۔

سزا معطلی اور دیگر درخواستوں پر  سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی۔ جمعرات 24 اگست کو سپریم کورٹ نے بھی اسی معاملے پر درخواست کی سماعت کی تھی اور ہائی کورٹ کو ہدایت کی تھی کہ اپیل جلد نمٹائی جائے۔ مگر جمعہ 24 اگست کو الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز بیمار پڑ گئے تھے۔

دو دن کے وقفے کے بعد چیف جسٹس عامر فاروق، جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل ڈویژن بینچ کی عدالت میں سماعت شروع ہوئی۔ عمران خان کے وکلا توقع کر رہے تھے کہ آج ہی نتیجہ نکل آئے گا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے بھی کہا کہ وہ آج چیئرمین ہی ٹی آئی کی سزا معطلی پر فیصلہ کردیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ عمران خان کی بہنیں علیمہ خان اور عظمیٰ خان بھی کمرہ عدالت میں موجود تھیں۔ انھیں بھی امید تھی کہ وہ اپنے بھائی کی رہائی کا پروانہ لے کر جائیں گی۔

مگر جب الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل شروع کیے تو وہ دلائل دیتے ہی چلے گئے۔ وہ سرحد پار سے راہول گاندھی کیس کی مثال لے آئے۔ انھوں نے عمران خان کی سزا معطل کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پرائیویٹ کمپلینٹ کیس میں راہول گاندھی کو دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ جبکہ عمران خان کو تو الیکشن کمیشن نے کرپٹ پریکٹس کا ذمے دار قرار دیا ہے۔امجد پرویز کا کہنا تھا کہ راہول گاندھی اپوزیشن لیڈر تھے اور انھوں نے غیر ذمے دارانہ تقریر کی تھی جبکہ یہاں تو کرپٹ پریکٹس اور مس ڈیکلیئریشن کا معاملہ ہے، جب یہ کرائم ہوا تب عمران خان ملک کے سب سے بڑے آفس میں بیٹھے تھے۔

امجد پرویز نے سرکار کو فریق بنانے پر بھی دوبارہ اصرار کیا اور یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ کیس سیشن کورٹ کے دائرہ اختیار میں ہی آتا ہے۔ امجد پرویز کے دلائل طویل ہونے لگے تو چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ روسٹرم پر آئے اور انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا، کچھ فیصلوں کے حوالے دینا چاہتا ہوں۔ عدالت نے امجد پرویز کو دلائل جاری رکھنے کی اجازت دی۔ بہت دیر تک دلائل دینے کے بعد انھوں نے دوائی کھانے کے لیے بریک کی درخواست کی۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا 5 منٹ کی بریک دے دوں اس پر انھوں نے کہا کہ پندرہ منٹ کی بریک دے دیں۔

وقفے کے بعد سماعت پھر شروع ہوئی۔ امجد پرویز نے سیکریٹری الیکشن کمیشن کی طرف سے شکایت درج کرانے کی بھی حمایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن کو الیکشن کمیشن نے حکم دیا تھا کہ وہ شکایت درج کروائیں۔  امجد پرویز نے سیکریٹری الیکشن کمیشن کی طرف سے شکایت دائر کرنے کے حق میں دلائل دیے اور دعویٰ کیا کہ کمپلینٹ کا ڈرافٹ الیکشن کمیشن نے منظور کیا تھا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ اس کا ریکارڈ سیشن عدالت میں کیوں نہیں جمع کرایا۔ اس پر امجد پرویز نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں تھی۔

عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ ایک بار پھر کھڑے ہوئے اور کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے ایک گھنٹا اس دن لگایا، دو گھنٹے آج لے گئے ہیں مگر ان کا اعتراض پھر مسترد کردیا گیا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے سماعت میں مزید توسیع مانگ لی اور کہا ابھی بہت دلائل رہتے ہیں، اگر آپ مناسب سمجھتے ہیں تو وقت دیا جائے۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نہیں، آپ ایسا مت کریں، آپ موٹے موٹے نکات بیان کر دیں بے شک تفصیل میں نہ جائیں، جلدی میں دلائل آگے بڑھائیں۔

سردار لطیف کھوسہ دوبارہ روسٹرم پر آئے اور کہا سر ایسا مت کریں، یہ اتنے لمبے دلائل والا کیس ہے ہی نہیں۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے سردار لطیف کھوسہ کو بیٹھنے کا کہا جس پر وہ واپس اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز سے کہا کہ وہ اپنے دلائل پانچ دس منٹ میں مکمل کرلیں۔ امجد پرویز نے اپنے دلائل مکمل کیے تو اس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ صبح کیا فیصلہ سنائے گی۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کو اٹک جیل سے رہائی مل پائے گی یا نہیں۔ سب کی نظریں اسلام آباد ہائی کورٹ پر لگ گئی ہیں۔

شیئر

جواب لکھیں