عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی اور دیگر درخواستوں پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی۔ اسی معاملے پر عمران خان کی اپیل سپریم کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ روز ریمارکس دیے تھے کہ بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں سنگین غلطیاں ہیں۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کو اپیل کی سماعت کرکے معاملے کو نمٹانے کی ہدایت کی تھی۔

سپریم کورٹ کے حکم کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ ہائی کورٹ میں اپیل کی سماعت کے بعد عمران خان کو ریلیف مل جائے گا اور ان کی سزا معطل کردی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ ہائی کورٹ میں سماعت کے بعد عدالت کو 2 بجے آگاہ کیا جائے۔

سپریم کورٹ کی ہدایت کے پیش نظر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت جلد ہونی چاہیے تھے مگر سماعت ہی ساڑھے بارہ بجے شروع ہوئی۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے سردار لطیف کھوسہ سلمان اکرم راجا،  بابر اعوان، بیرسٹر علی ظفر، بیرسٹر گوہر، شیر افضل مروت، شعیب شاہین سمیت 2 درجن سے زائد وکلا عدالت میں پیش ہوئے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے امجد پرویز اور دیگر عدالت میں موجود تھے۔ اس موقع پر کمرہ عدالت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ وکیلوں کے ساتھ ساتھ صحافیوں کی بڑی تعداد بھی عدالت میں موجود تھی۔ تمام کرسیاں بھر چکی تھیں۔ کئی وکیل اور صحافی کھڑے ہو کر کارروائی سن رہے تھے۔

Raftar Bharne Do

 لطیف کھوسہ نے دلائل کا آغاز کیا اور تقریباً ایک گھنٹے تک دلائل دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں دائرہ اختیار کا تعین سب سے پہلے ہونا چاہیے تھا۔ سیشن عدالت الیکشن کمیشن کی اپیل پر براہ راست سماعت کا اختیار ہی نہیں رکھتی، عدالتی دائرہ اختیار کا معاملہ پہلے نمٹایا جانا چاہیے تھا۔

سردار لطیف کھوسہ نے الیکشن ایکٹ 2017 کی متعلقہ شقیں پڑھ کر سنائیں اور یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ الیکشن کمیشن معاملے پر کسی کمشنر کو ہی اختیار دے سکتا تھا۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن مجاز آفیسر نہیں تھا کہ وہ ضلعی الیکشن کمیشنر کو اتھارٹی جاری کرتا کہ وہ شکایت درج کروائے۔

انھوں نے کہا کہ آپ کے پاس ہم نظر ثانی کی درخواست لائے جسے آپ نے منظور کیا تھا، ہماری درخواست پر آپ نے ٹرائل کورٹ کو کچھ سوالات کے ساتھ دوبارہ کیس قابل سماعت ہونے پر ہمیں سننے کا کہا مگر ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کا فیصلہ نہیں مانا۔

سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ مائی لارڈ! ملزم عمران خان کی غیر قانونی سزا فوری معطل کی جائے۔

دوران سماعت روایت کے برعکس چیف جسٹس عامر فاروق اور سردار لطیف کھوسہ نے ایک دوسرے پر اعتماد کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے سردار لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آ پکو تفصیلاً سننا چاہتے ہیں۔ سردار لطیف کھوسہ نے چیف جسٹس کے ساتھ مسکراہٹ کا تبادلہ کیا۔

لطیف کھوسہ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ سیشن جج نے کہا ہائیکورٹ جو مرضی آرڈر کرے میں اپنی مرضی سے چلوں گا۔ یہ رویہ تھا سیشن جج کا۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں آپ کو کہوں گا کہ آپ اس آرڈر کو ہی معطل کر دیں، سیشن جج نے آپ کے آرڈر کو نظر انداز کیا۔ ایڈیشنل سیشن جج نے تو ہمارے گواہان کو سننا بھی گوارہ نہ سمجھا۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے پوچھا کہ گواہان کو نہ سننے کی کیا وجہ تھی؟ لطیف کھوسہ نے بتایا کہ جج نے کہا گواہان غیر متعلقہ ہیں۔  جسٹس طارق محمود جہانگیری نے پوچھا گواہان غیر متعلقہ کیسے ہیں؟ کیا وجہ نہیں بتائی گئی؟

سردار لطیف کھوسہ نے ٹرائل کورٹ کے آرڈر میں گواہان کو نہ سننے کا پیرا پڑھ کر سنایا اور کہا یہ ٹیکس اور اکاؤنٹنٹس کی جاب تھی مگر کہا گیا یہ غیر متعلقہ لوگ ہیں۔ اکاؤنٹنٹ اور ٹیکس ماہر متعلقہ نہیں تو پھر مالی معاملات میں کون متعلقہ لوگ ہیں ؟

لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ نے گواہان کو سنے بغیر فیصلہ جاری کر دیا۔

ہم فیصلہ رکوانے آپ کے پاس سٹے آرڈر لینے آئے۔ معذرت کیساتھ آپ نے بھی اس عمل کو روکنے کے لیے ہماری درخواست پر اسٹے نہیں دیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے 920 دن بعد شکایت درج کروائی۔ حالانکہ 120 دن بعد شکایت درج نہیں کروا سکتے۔ میں خود الیکشن کمیشن کے فارم بھرتا رہا ہوں۔ ساری زندگی الیکشن فارم پر شکایات درج نہیں ہو سکتیں۔ 120 دن کی لمٹ رکھنے کا ایک مقصد ہے مگر یہاں 920 دن بعد الیکشن کمیشن کو یاد آیا کہ عمران خان نے مس ڈیکلیئریشن کر دیا۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ فیصلے کے دن بھی خواجہ حارث راستے میں تھے کہ ان کا حق دفاع ہی ختم کر دیا گیا۔ 12:30 پر فیصلہ آیا اور 12:35 پر عمران خان کے دروازے کو توڑ کر انھیں گرفتار کیا گیا۔

لطیف کھوسہ کے بعد سلمان اکرم راجا نے دلائل دیے۔ وقفے کے بعد وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے دلائل کا آغاز کر دیا۔

انھوں نے کہا کہ حقِ دفاع بحالی کی درخواست اس عدالت کے سنگل بنچ کے سامنے زیرسماعت ہے، ڈویژن بنچ کے دوسرے رکن کی کسی آبزرویشن سے بھی وہ متاثر ہو گا۔ اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اسکا مطلب ہے یہ ڈویژن بنچ تو سپریم کورٹ اور سنگل بنچ کے درمیان سینڈوچ ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ عدالت اس وقت سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کر رہی ہے، سزا معطلی کی درخواست پر عدالت میرٹس پر گہرائی میں نہیں جائے گی۔ یہ سوالات تو آئیں گے کہ ملزم کو حقِ دفاع ہی نہیں دیا گیا۔

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے گواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دیا، گوشوارے تو اپنے کنسلٹنٹ کی مشاورت سے جمع کرائے جاتے ہیں نا۔ یہ تو کلائنٹ کو بتانا ہوتا ہے کہ اُس کے اثاثے کیا تھے۔

اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ مجھے تو کوئی اپنے ریٹرنز فائل کرنے کا کہے تو میں تو خود نہیں کر سکتا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے تیاری کے لیے مزید وقت مانگا۔ کہا میری زندگی میں سزا معطلی کی ایسی سماعت نہیں ہوئی، اس میں تو ریاست کو نوٹس ہی نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا یہاں الیکشن کمیشن فریق ہے، ریاست کو نوٹس کیوں کریں؟ امجد پرویز نے جواب دیا کہ کیونکہ ملزم ریاست کی کسٹڈی میں ہے۔

امجد پرویز نے کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ سزا معطلی کی درخواست خارج کر دی جائے، میرا مدعا یہ ہے کہ کم از کم ریاست کو نوٹس ایشو کیا جائے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ بالفرض اگر ریاست کو نوٹس کر بھی لیتے ہیں تو ریاست آ کر کیا کرے گی ؟ ریاست مدعی تو نہیں ہے، وہ تو آپ ہیں۔

کیس کی سماعت جمعے تک ملتوی کرنے کا اعلان کیا گیا تو لطیف کھوسہ نے کہا کہ سر سپریم کورٹ انتظار کر رہی ہے۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا وہ دیکھیں گے۔ انھوں نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے پوچھا کہ کل آپ کتنا وقت لیں گے؟ امجد پرویز نے جواب دیا کہ 3 گھنٹے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کل جمعے کی نماز تک اپنے دلائل مکمل کرلیں۔

دوسری طرف اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے وقفے کے دوران سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں دلائل مکمل کرکے آیا ہوں۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے پوچھا کیا اپ نے ہائیکورٹ کے سامنے تمام اعتراضات اٹھائے؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ بالکل میں نے ہائیکورٹ کے سامنے تمام حقائق رکھے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا پہلے آپ کو کوئی سن نہیں رہا تھا اب سن رہے ہیں۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہائیکورٹ کو بھی بتایا تھا پہلے دو مرتبہ آئے لیکن فیصلے کے بجائے واپس بھیج دیا گیا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے پوچھا کھوسہ صاحب یہ بتائیں کہ ہائیکورٹ میں مقدمے کا کیا فیصلہ آئے گا؟

سردار لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ سر میں پیشین گوئی تو نہیں کر سکتا نہ ہی میں کوئی تاریخیں دینے والا سیاستدان ہوں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہائی کورٹ معاملے کا حل نکال رہی ہے، یہی ہمارے نظام کی خوبصورتی ہے، ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے دیں پھر سماعت کریں گے۔ ممکن ہے ہائی کورٹ ریلیف دے دے۔

اس کے بعد کیس کی سماعت ہائی کورٹ کے فیصلے تک ملتوی کر دی گئی۔ یعنی کل اگر ہائی کورٹ نے عمران خان کی سزا معطل کردی تو عمران خان کل اٹک جیل سے رہا ہوجائیں گے اور اگر ایسا فیصلہ نہ آیا تو عمران خان کی رہائی کا معاملہ لٹک جائے گا اور سپریم کورٹ میں سماعت اگلے ہفتے میں ہی ہوسکے گی۔

شیئر

جواب لکھیں