پاکستان میں لاپتا افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ مسنگ پرسن کمیشن نے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ لاپتا افراد کی تعداد میں گزشتہ ماہ 157 افراد کا اضافہ ہوا۔

لاپتا افراد کی تعداد 9 ہزار 736 سے بڑھ کر 9 ہزار 893 ہوگئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان میں سے 7 ہزار 616 کیس نمٹا دیے گئے ہیں۔ 2 ہزار 277 گمشدگیوں کا مسئلہ حل ہونا باقی ہے۔

پاکستان میں لوگوں کی جبری گمشدگی اور لاپتا ہونے کا معاملہ نیا نہیں ہے۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد جب پاکستان میں دہشت گردی اور انتہاپسندی بڑھی تو لوگوں کے لاپتا ہونے کے واقعات بھی بڑھنے لگے۔

اسی طرح بلوچستان میں شہریوں کے لاپتا ہونے کے واقعات سب سے زیادہ پیش آتے ہیں۔ قوم پرست اور علیحدگی پسند جماعتیں الزام عائد کرتی ہیں کہ ان کے کارکنوں اور حامیوں کو سیکیورٹی ادارے اور ایجنسیاں اغوا کر لیتی ہیں۔

 پاکستان کے سیکیورٹی ادارے ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں، ان کا موقف ہے کہ لاپتا قرار دیے جانے والے بیش تر افراد افغانستان جا کر عسکری تنظیموں میں شامل ہوجاتے ہیں یا غیرقانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش میں موت کے منہ میں پہنچ جاتے ہیں۔

معروف صحافی عمران ریاض خان بھی لاپتا افراد میں شامل ہیں

پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے معاملات کی تحقیقات کے لیے 2011 سے ایک کمیشن بھی قائم کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ اور دیگر عدالتیں ان معاملات کی وقتاً فوقتاً سماعت کرتی رہتی ہیں۔

عمران ریاض خان

9 مئ کے واقعات کے بعد سے پی ٹی آئی بھی یہ الزام عائد کر رہی ہے کہ اس کے درجنوں کارکنوں کو لاپتا کردیا گیا ہے۔ اسی طرح معروف صحافی عمران ریاض خان کو سیالکوٹ ایئرپورٹ سے بیرون ملک جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا تاہم اس کے بعد سے وہ لاپتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود تقریباً تین ماہ بعد بھی انھیں بازیاب نہیں کرایا جاسکا ہے۔

شیئر

جواب لکھیں