عمران ریاض خان کہاں ہیں؟ ان کا پتا لگایا جائے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو حکم دے دیا۔

فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی بنچ نے سماعت کی۔  اٹارنی جنرل آف پاکستان نے فوج کسٹڈی میں 102 ملزمان کے نام اور دیگر تفصیلات عدالت میں جمع کرائیں۔

عمران ریاض خان کی گمشدگی سپریم کورٹ میں زیر بحث

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مجھے ایک خط موصول ہوا جس میں کہا گیا ہے کہ میں عمران ریاض کی بازیابی کے لیے کچھ نہیں کر رہا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ عمران ریاض خان کہاں ہیں؟ کیا وہ حکومت کی تحویل میں ہیں ؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عمران ریاض خان حکومت کی تحویل میں نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا یہ معاملہ سنجیدہ ہے، پہلے بھی سندھ سے ایک شہری لاپتا ہوا تھا جس پر سبھی اداروں نے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔ ہم نے تب ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی معاونت سے شہری کا پتا لگایا تھا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ قابل آدمی ہیں، پتا کیجیے کہ صحافی عمران ریاض کس کی تحویل میں ہیں۔  تمام وسائل لگا کر انھیں ٹریس کرنے کی کوشش کریں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس طرح کی حرکات سے معاشرے میں خوف و ہراس پھیلتا ہے، عید پر ہر کسی کو پتا ہونا چاہیے کہ کون کون حراست میں ہے، عید پر سب کی اپنے گھر والوں سے بات ہونی چاہیے۔ ملزمان کی آج ہی اہلخانہ سے بات کروائیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحویل میں موجود ملزمان کو گھر والوں سے فون پر بات کرنے کی اجازت دی جائے گی، والدین، بیوی بچوں اور بہن بھائیوں کو ہفتے میں ایک بار ملزمان سے ملاقات کی اجازت ہو گی۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ فوج کی تحویل میں موجود ملزمان کو جو کھانا دیا جاتا ہے وہ سویلین قید خانوں سے کافی بہتر ہے، ملزمان وہی کھانا کھاتے ہیں جو فوجی جوان کھاتے ہیں، انھیں صحت کی سہولت بھی حاصل ہے۔

فوج کی تحویل میں کون کون ہے نہیں بتاسکتے، اٹارنی جنرل

جسٹس عائشہ اے ملک نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ  102 افراد جو فوج کی حراست میں ہیں، ان کی لسٹ پبلک کیوں نہیں کر دیتے ؟  تاکہ لوگوں کو پتا چل سکے گا کہ کون آپ کی کسٹڈی میں ہے کون نہیں؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ملزمان ابھی زیر تفتیش ہیں اس لیے ان کے نام پبلک کرنا مناسب نہیں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا موجودہ مقدمات میں  سزائے موت کا کوئی ایشو ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سزائے موت صرف اس صورت میں ہو سکتی ہے جب کوئی فارن ایجنٹ ملوث ہو، موجودہ مقدمات میں کسی بیرونی ایجنٹ کے ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں اس لیے سزائے موت نہیں ہو سکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اب عید کے بعد ملیں گے، عید کے بعد پہلے ہفتے میں بتائیں گے کہ کیس کی سماعت کب ہوگی۔

اس پر وکیل خواجہ احمد حسین نے درخواست کی کہ حکم کر دیں کہ جب تک یہ کیس چل رہا ہے اس دوران کسی سویلین کا ٹرائل نہ ہو۔

اٹارنی جنرل نے دعویٰ کیا کہ فوج کی تحویل میں موجود 102 افراد کا کوئی ٹرائل نہیں ہو رہا، تمام افراد صرف تحویل میں ہیں، تحقیقات ہو رہی ہیں، کسی کو سزائے موت سنائی نہیں جا رہی۔ انھوں نے مزید کہا کہ نہیں معلوم کہ اگلے دو ہفتے تک تحقیقات کہاں تک پہنچیں گی۔

وکیل خواجہ احمد حسین کا کہنا تھا کہ کم از کم اٹارنی جنرل کے بیان کو حکم نامے کا حصہ بنایا جائے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ فوجی تحویل میں افراد کو وکیل کا حق دیا جائے گا؟

 اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وکیل کا حق تو قوانین کے تحت ملنا ہی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی پیش رفت ہوتی ہے تو اگلے ہفتے میں آگاہ کریں۔ اس دوران ہر ایک کا خیال رکھیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ وکلا، اور صحافیوں کے ساتھ خواتین کا بھی تحفظ ضروری ہے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی۔

شیئر

جواب لکھیں