اقتدار اور اختیار میں سب سے زیادہ نشہ ہوتا ہے، خاص طور پر پاکستان اور اِس جیسے ترقّی پذیر ممالک میں جہاں سربراہِ مملکت کو بے پناہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کبھی کسی لیڈر نے خود سے اقتدار نہیں چھوڑا۔ کسی کو قتل کیا گیا، کسی کو جبراً بے دخل کیا گیا تو کسی کو جلا وطن کیا گیا .
اسی طرح سیاسی پارٹی کا سربراہ بھی پارٹی کا مالک ہوتا ہے۔ وہ اپنی پارٹی کو پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے طور پر چلاتا ہے۔ خود پارٹی چھوڑنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ پارٹی میں کوئی اس سے اختلاف کرے تو اسے باہر کا رستہ دکھا دیا جاتا ہے۔
پاکستان بنتے ہی طاقت کی سیاست شروع ہوئی
قیام پاکستان کے وقت سے ہی سے ہی سیاسی رسا کشی شروع ہوگئی تھی جو لیاقت علی خان کے قتل کے بعد مزید تیز ہوئی۔ غلام محمد جوڑ توڑ کرکے گورنر جنرل بن گئے۔ آخر آخر میں ان کی طبیعت اتنی خراب رہنے لگی کہ وہ ویل چیئر پر آتے جاتے تھے۔ کوئی ان کی بات سمجھ نہیں سکتا تھا مگر وہ اقتدار سے چمٹے ہوئے تھے۔ بالآخر اگست 1955ء میں قائم مقام گورنر جنرل میجر جنرل اسکندر مرزا نے ان کو برطرف کر دیا۔ اسکندر مرزا کو کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے بے عزت کرکے نکالا۔ ان کو نہ صرف صدرات بلکہ ملک بھی چھوڑنا پڑا۔
لیاقت علی خان کے بعد 1958ء تک ملک میں 6 وزیر اعظم تبدیل ہو چکے تھے اور کوئی بھی اپنی مدت پوری نہیں کرسکا تھا۔ ایوب خان نے مارشل لا لگا کر11 سال ملک پر حکومت کی۔ ان کا بھی اقتدار چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن 1969ء میں ان کو دل کا دورہ پڑا اور فالج ہوگیا۔ اُس وقت ملک کے حالات بھی بہت خراب تھے مگر ایوب خان حکومت چھوڑنے کو راضی نہیں تھے۔ کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان نے ایوانِ صدر پر قبضہ کر لیا اور ایوب خان کو استعفا دینے پر مجبور کیا۔
یحییٰ خان کو 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں شکست کے بعد اقتدار چھوڑنا پڑا۔ ان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو آئے۔ انھوں نے ایوب خان کے دور میں پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے اپنی پارٹی بنا لی تھی . وہ بھی خود کو ملک کے لیے ضروری خیال کرتے تھے۔ ان کے زمانے میں اپوزیشن کی کئی تحریکیں چلیں مگر بھٹو نے حکومت نہیں چھوڑی بلکہ مخالفین کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی۔ آخر جولائی 1977ء میں انھی کے لگائے ہوئے آرمی چیف جنرل ضیاءالحق نے بغاوت کی اور ان کو پہلے قید اور بعد میں پھانسی لگا دی۔
جنرل ضیاءالحق نے وعدہ کیا تھا کہ 90 دن میں الیکشن کرا دیں گے لیکن اقتدار کے نشے میں وہ اپنا وعدہ بھول گئے اور مارشل لا لگا کر11 سال حکومت کرتے رہے۔ ضیاء الحق بھی یہی سمجھتے تھے کے ملک ان کے بغیر نہیں چل سکتا۔ اپنی موت سے 3 چار مہینے پہلے انھوں نے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کی تھی۔ ضیاء الحق کا بھی آخر دم تک حکومت چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ 17 اگست 1988ء کو طیارہ حادثے میں ان کی موت نہ ہوتی تو نہ جانے وہ کب تک اقتدار کی کرسی پر براجمان رہتے۔
ان کے بعد جمہوری دور میں بےنظیر بھٹو اور نواز شریف دو دو بار وزیراعظم بنے۔ دونوں کی حکومتیں برطرف کی گئیں۔ 8 اکتوبر 1999ء کو آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے فوجی حکومت قائم کی۔ وہ بھی سوا 8 سال حکومت کے بعد 2008 ء میں مجبوری میں رخصت ہوئے کیونکہ وردی اتارنے کے بعد فوج میں ان کی حمایت ختم ہو چکی تھی۔ مشرف کو بھی اقتدار کی لت ایسی لگی تھی کہ انھوں نے اِس کے بعد ایک سیاسی جماعت بھی بنائی تھی مگر اسے مقبولیت نہیں مل سکی
بےنظیر اور نواز شریف نے بھی کبھی اقتدار چھوڑنے کا نہیں سوچا
اسی طرح بےنظیر بھٹو بھی دسمبر2007ء میں قاتلانہ حملے میں موت تک سیاست میں سرگرم رہیں۔ بلکہ ان کا قتل بھی راولپنڈی میں ایک سیاسی جلسے کے بعد ہوا تھا۔ بےنظیر بھٹو کے پرانے حریف نواز شریف 73 سال عمر کے باوجود اب تک سیاست میں مصروف ہیں۔ کئی سال سے دل سمیت مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں مگر دل اب بھی اقتدار کے ایوان میں اٹکا ہے۔عدالت نے نواز شریف کو نا اہل قرار دیا ہوا ہے لیکن وہ کوشش کر رہے ہیں کہ یہ نااہلی ختم ہو جائے اور وہ دوبارہ پاکستان کے وزیر اعظم بن سکیں۔
نواز شریف کی طرح عمران خان ، آصف زرداری ، فضل الرحمان، چودھری شجاعت وغیرہ بھی ریٹائرمنٹ کی سرکاری عمر سے آگے نکل چکے ہیں مگر ان کا سیاست سے ریٹائرمنٹ کا دور دور تک ارادہ نظر نہیں آتا۔
مغربی ممالک میں کیا ہوتا ہے؟
دوسری جانب مغربی ممالک میں دیکھیں تو اول تو سیاسی جماعتیں ذاتی جاگیر نہیں ہوتیں . پارٹی سربراہ آتے ہیں چلے جاتے ہیں، پارٹی قائم رہتی ہے۔ ابھی حال ہی میں نیوزی لینڈ کی جیسنڈا آرڈرن نے استعفا دے کر اور سیاست چھوڑ کر سب کو حیران کردیا تھا۔ جیسنڈا آرڈرن ابھی صرف 42 سال کی ہیں . وہ 37 سال کی عمر میں دُنیا کی سب سے کم عمر سربراہ مملکت بنی تھیں۔ استعفا دیتے وقت بھی وہ ملک میں مقبول تھیں اور چاہتیں تو دوسری بار بھی وزیراعظم منتخب ہو سکتی تھیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی فیملی کو وقت دینا چاہتی ہیں .
اسی طرح برطانیہ میں ڈیوڈ کیمرون 2005 سے کنزرویٹو پارٹی كے سربراہ تھے۔ 2010ء میں وہ وزیراعظم بنے۔ 2015ء كے الیکشن میں وہ دوبارہ منتخب ہوئے مگر 2016ء میں بریگزٹ ریفرنڈم كے بعد انھوں نے وزارت عظمیٰ، پارٹی سربراہی اور سیاست تینوں کو چھوڑ دیا۔ ان كے بعد ٹیریزا مے وزیراعظم بنیں۔ انھوں نے 2017ء میں جلد الیکشن کروائے اور کامیابی حاصل کی مگر 2019ء میں انھوں نے پارٹی سربراہی اور وزارت عظمیٰ چھوڑ دی۔ ان كے بعد بوریس جانسن، پِھر لِز ٹروس اور اب رشی سوناک پارٹی سربراہ اور وزیراعظم ہیں۔
برطانیہ کی طرح امریکا میں بھی یہی حال ہے بلکہ وہاں تو 1951ء میں قانون بنا دیا گیا كے کوئی بھی شخص 2 سے زیادہ بار صدر نہیں بن سکتا۔ پچھلے 70 سال میں وہاں سیاست دان ایک یا 2 ٹرم كے لیے صدر بن کر جاتے رہے۔ نہ کوئی اقتدار سے چمٹا رہتا ہے نہ پارٹی کسی کی ذاتی جاگیر ہوتی ہے کہ وہ باہر رہ کر بھی کنگ میکر بنا رہے۔ یہ لوگ سیاست سے ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ اپنی فیملیوں كے ساتھ وقت گزارتے ہیں، سیر و سیاحت کرتے ہیں، یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتے ہیں اور کتابیں لکھتے ہیں۔
پاکستانی سیاست دان مغرب کی مثالیں تو دیتے رہتے ہیں مگر خود کبھی مغرب کی اعلیٰ مثالوں پر عمل کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔