پرویز خٹک عمران خان سے مقابلے کے لیے میدان میں آگئے۔ سابق وزیردفاع اور خیبرپختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے نئی جماعت کا اعلان کردیا ہے مگر نیا نام رکھنے کے بجائے اسے پاکستان تحریک انصاف پارلیمینٹرین کا نام دیا ہے۔ یعنی پی ٹی آئی پی۔

پرویز خٹک کی نئی جماعت میں کون کون شامل ہوا؟

جماعت کے قیام کا اعلان پشاور میں جی ٹی روڈ پر واقع ایک شادی ہال میں کیا گیا مگر حیرت انگیز طور پر کوئی پریس کانفرنس نہیں کی گئی بلکہ صرف ایک پریس ریلیز جاری کی گئی ہے۔ شادی ہال کے باہر پہنچنے والے صحافیوں کو نہ اندر گھسنے دیا گیا نہ تصویریں بنانے دی گئیں۔ بلکہ یہ خبریں آئی کہ جن صحافیوں نے تصویریں بنائیں ان کو حراست میں لے لیا گیا اور ان کے موبائل سے تصویریں ڈیلیٹ کرادی گئیں۔ بہرحال پارٹی کے قیام کی پریس ریلیز اور تصویریں جاری کی گئی ہیں۔ اعلامیے کے مطابق پارٹی کے سربراہ پرویز خٹک ہیں اور اس میں سابق وزیراعلیٰ محمود خان سمیت پی ٹی آئی کے 57 سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔

Raftar Bharne Do

ان ارکان قومی اسمبلی میں سابق صوبائی وزیر صوبائی وزیراشتیاق ارمڑ، صالح محمد خان، ضیا اللہ بنگش، ارباب وسیم، ملک واجد علی، افتخار مشوانی اور شوکت علی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ یعقوب شیخ، آغاز اکرم گنڈا پور، پیر مصور شاہ، اورکزئی سے سید غازی غزن جمال، سابق صوبائی وزیر انور زیب خان، نوابزادہ فرید صلاح الدین اور محب اللہ خان بھی نئی پارٹی میں شامل ہوئے۔

ارباب وسیم حیات، نوابزادہ فرید صلاح الدین، عرفان کنڈی اور رمضان شوری، مفتی عبید، عقیق ہادی اور دیگر نے بھی پی ٹی آئی پی میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔

پرویز خٹک نے نئی جماعت کیوں بنائی؟

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ نئی پارٹی کا قیام سانحہ 9 مئی پر پی ٹی آئی کے اندر اختلافات اور احتجاج کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ نئی پارٹی میں شامل ہونے والے تمام سیاسی رہنما سابق وزیر اعظم عمران خان کو سانحہ 9 مئی کا ذمے دار قرار دے رہے ہیں۔ پرویز خٹک کی جماعت کا کہنا ہے کہ عمران خان کے  ملک دشمن ایجنڈے کو نہ صرف عوام بلکہ ان کے اپنی پارٹی کی قیادت نے بھی مستر د کر دیا ہے اور سانحہ 9 مئی کے واقعات پر ان محب وطن سیاست دانوں نے پی ٹی آئی سے راہیں جدا کر لی ہیں۔

پارٹی کی پہلی بیٹھک کی جو تصویریں جاری کی گئی ہیں ان میں رہنماؤں کے چہروں پر مایوسی، بیزاری اور خوف جیسی کیفیات نمایاں تھیں۔ اسی لیے ٹوئیٹر پر جبری علیحدگی کا ہیش ٹیگ دوبارہ ٹاپ ٹرینڈ میں شامل ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ میڈیا کو جاری کی گئی خبر میں رہنماؤں کے نام اور ان کے سابقہ عہدے بتائے گئے۔ اس فہرست میں ایک تصویر اے این پی کے سابق رکن صوبائی اسمبلی وقار خان کی بھی شامل کرلی گئی جن کا پچھلے سال انتقال ہوچکا ہے۔ ان کی تصویر کے سامنے نام فضل مولا لکھا گیا تھا جو ان کے بعد اس حلقے سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ افتخار مشوانی سمیت کئی رہنما جن کے نام اس فہرست میں دیے گئے تھے وہ تحریک انصاف چھوڑنے کی تردید کر رہے ہیں۔

عمران خان کا پرویز خٹک کو گڈ لک

پرویز خٹک کی پارٹی پر پی ٹی آئی کا ردعمل بھی آگیا۔ عمران خان سے لاہور ہائی کورٹ میں سوال ہوا تو انھوں نے پرویز خٹک کو گڈ لک کہا۔۔ بولے اچھا ہے ملک میں زیادہ جماعتیں ہونی چاہییں۔

دوسری طرف پی ٹی آئی کے ٹوئیٹر ہینڈل پر کہا گیا ہے کہ بارش کے موسم میں نئی جماعتیں گھاس کی طرح اگ رہی ہیں۔ ملک میں جمہوریت کی کھڑی فصل کو 14 جماعتی ٹڈی دَل سے تباہ کرکے سیاست کو جھاڑ جھنکار سے آباد کرنے کی کوشش جاری ہے۔

پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ان نئی فصلوں کی آبیاری کے چیلنج میں ”محکمہ زراعت“ کے اہلکار شب و روز محنت سے ہلکان ہورہے ہیں۔ چند ہفتے پہلے لاہور میں بویا جانے والا ”استحکام“ مارکا  بیج گلا سڑا نکلا جو فصل بننے سے پہلے ہی خاک میں مل گیا۔ خیبرپختونخوا میں ”پارلیمنٹیرین“ نامی بیج بھی عوامی ردّعمل کی پہلی بارش میں ہی بہہ جائے گا۔ پسِ پردہ سازشوں میں شریک گندے انڈوں کو بےنقاب کرنے اور انہیں تحریک انصاف سے الگ کرنے پر بہرحال ”محکمۂ زراعت“ اور اس کے ”عملے“ کے شکرگزار ہیں۔ قوم حقیقی آزادی اور آئین و قانون کی بالادستی کے لیے عمران خان کے ساتھ ہے۔

شیئر

جواب لکھیں