وہ بھی کیا دن تھے، جب موبائل فونز استعمال کرنا اور ان کی مرمت کرنا بھی آسان ہوتا تھا۔ ڈھکن کھولا، بیٹری نکالی، نئی بیٹری لگائی اور فون  نیا کا نیا ہو گیا۔ لیکن پھر زمانہ آیا ایسی بیٹریوں کا، جنھیں نکالنا ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔ کمپنیوں نے کہا ایسا بیٹری  ٹائمنگ بڑھانے کے لیے کیا گیا، یا پھر فون کو واٹر پروف بنانے کے لیے اور بھی کئی فیچرز کے نام لیے گئے اور عام صارف اس سہولت سے ہمیشہ کے لیے محروم رہ گیا۔ لیکن اب لگتا ہے  وہ زمانہ واپس آنے والا ہے، کیونکہ یورپ نے ایسا قانون بنا دیا ہے جس کے تحت ہر ڈیوائس میں   لگي بیٹری  'ریموویبل' ہوگی یعنی اسے نکالا جا سکے گا اور نئی بیٹری بھی لگانا ممکن ہوگا،  بالکل پہلے کی طرح۔

Raftar Bharne Do

یورپی یونین نے بیٹریوں سے لاحق ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک ایسی پالیسی کا اعلان کیا ہے جس انھیں ری سائیکل کرنے اور ان کے استعمال کے حوالے سے  سخت اہداف رکھتی ہے۔   یہ صرف  اسمارٹ فون، ٹیبلٹ اور دیگر  ڈیوائسز کا ہی احاطہ نہیں کرتی، بلکہ اس میں  الیکٹرک گاڑیوں،  اسکوٹروں اور صنعتی پیمانے پر استعمال ہونے والی بیٹریاں بھی شامل ہیں۔

اس نئے قانون کی سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ بیٹری کا ڈیزائن صارف دوست ہونا  چاہیے، یعنی ایک عام صارف با آسانی بیٹری نکال  سکے اور اس کی جگہ نئی نکال سکے۔

اس قانون کے اطلاق کے لیے صرف ساڑھے تین سال کا وقت دیا گیا ہے، یعنی 2027 تک  یورپ میں اپنی چیزیں فروخت کرنے والی ہر کمپنی کے لیے ایسا کرنا لازم ہوگا۔

اب ایپل اور سام سنگ کے علاوہ فون بنانے والے اداروں  کے لیے نیا دردِ سر پیدا ہو چکا ہے۔ کیونکہ اس وقت تمام ہی اسمارٹ فون اور دیگر ڈیوائسز نان ریموویبل بیٹریاں رکھتی ہیں اور انھیں کسی ماہر کے علاوہ کوئی نہیں نکال سکتا۔ لیکن اب  تمام اداروں کو اپنے ڈیزائن میں نمایاں اور بڑی تبدیلیاں کرنا ہوں گی اور ہو سکتا ہے کئي ایسے فیچرز ختم ہو جائیں، جو اس وقت موجود ہیں۔ مثلاً بیٹری کو ریموویبل بنانے کے لیے ہو سکتا ہے فون کو واٹر پروف بنانے کی سہولت ختم کرنا پڑے۔

یورپ کچھ عرصہ پہلے ایپل کو مجبور کر چکا ہے کہ وہ  یورپ میں اپنا وہی فون بیچ سکتا ہے، جس میں لائٹننگ پورٹ نہ ہو بلکہ یو ایس بی سی پورٹ ہو۔ اسی لیے آئی فون 15 سے  سی پورٹ آنے کی توقع ہے اور اب ایپل کو  اگلے فونز میں صارف کو اپنی بیٹریوں تک رسائی بھی دینا پڑے گی۔

شیئر

جواب لکھیں