خواب بہہ گئے، ارمان بہہ گئے، سمندر کی تندوتیز لہروں میں کئی انسان بہہ گئے ۔ یونان میں کشتی اُلٹنے کا واقعہ اس قدر ہولناک ہے کہ روح کانپ جائے، دل لرز جائے، ساڑھے پانچ سو سے زائد جانیں اس طرح بپھری لہروں کی نذر ہوگئیں کہ کوئی سراغ تک نہ چھوڑا ۔ ریسکیو ٹیمیں چار دن تک کھوج لگاتی رہیں لیکن بمشکل 100 افراد کو ہی بچایا جاسکا ۔ 78 افراد کی لاشیں ملیں، جن کی شناخت کا عمل جاری ہے۔ برطانوی میڈیا کے مطابق کشتی میں تقریبا 750 تارکین وطن سوار تھے، جن میں سے 288 کا تعلق پاکستان اور 135 کا آزاد کشمیر سے تھا۔ جبکہ وزیرآباد، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، منڈی بہاءالدین اور دیگر شہروں سے بھی نوجوانوں نے سنہرے مستقبل کا خواب آنکھوں میں سجائے اس پرخطر راستے کا انتخاب کیا۔ جن کے پیارے اس ہولناک واقعے میں جان گنوا بیٹھے ہیں، اُن کے گھر صف ماتم بچھی ہے، والدین اپنے پیاروں کے لیے غم سے نڈھال ہیں

یونان کشتی

امریکا اور یورپ جانے کی خواہش میں قیمتی جانوں کا اس طرح سمندر کی نذر ہونا کوئی نئی بات نہیں ۔ اس طرح کے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں ۔ رواں سال 2 فروری کو لیبیا میں کشتی اُلٹنے سے پاکستانیوں سمیت درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، حکومتوں کی جانب سے سخت بیانات جاری ہوئے، تھوڑا بہت ایکشن بھی نظر آیا، ایک دو گرفتاریاں عمل میں آئیں لیکن پھر سب غفلت کی نیند سوگئے ۔ اقوام متحدہ کے مطابق اندازہ ہے کہ 2014 سے اب تک تقریبا 50 ہزار تارکین وطن یورپی یونین یا امریکا ہہنچنے کی کوشش میں یا تو ہلاک ہو چکے ہیں یا پھر لاپتا ۔ ادارے کا ماننا ہے کہ ہلاک شدگان اور لاپتا افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے

سوال یہ ہے کہ آخر کیوں لوگ اپنی زندگیاں داو پر لگا رہے ہیں؟، کیوں ہمارے نوجوان لاکھوں روپے خرچ کرکے، جان ہتھیلی پر رکھ کر، دیار غیر کی سختیاں جھیلنے پر آمادہ ہیں؟ حالانکہ جو رقم وہ انسانی اسمگلرز کو دے رہے ہیں اُس سے یہیں پر اچھی خاصی آمدن کمائی جا سکتی ہے۔ آپ یوٹیوب پر غیرقانونی تارکین وطن کے سفر کی روداد سنیں تو کلیجا پھٹ جاتا ہے کہ  کس طرح انسانی اسمگلر اُنہیں سنگلاخ پہاڑوں پر 20 سے 25 روز تک دوڑاتے یں ۔ پھر اُنھیں جانوروں کی طرح کبھی ایک ٹرک سے دوسرے ٹرک اور ایک کشتی سے دوسری کشتی میں ٹھونسا جاتا ہے ۔ کئی لوگ تو راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں اور جو خوش نصیب منزل پر پہنچ جاتے ہیں وہ لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ یہ راستہ اختیار نہ کریں۔

یونان کشتی حادثہ، پاکستانیوں سے بدسلوکی بھی کی گئی

سفر کے دوران اور منزل تک پہنچنے میں پاکستانیوں کو جس امتیازی سلوک سے گزرنا پڑتا ہے وہ ایک الگ داستان ہے۔ برطانوی میڈیا نے یونان کشتی حادثے میں بچ جانے والے ایک عینی شاہد کے حوالے سے بتایا، کہ پاکستانیوں کو کشتی کے سب سے نچلے حصے میں رکھا گیا تھا، اُنھیں پیاس لگتی یا وہ باہر آنا چاہتے تو اُنھیں گالیاں دی جاتیں ، تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔ درندوں نے خواتین اور بچوں کا بھی لحاظ نہ رکھا، اُنہیں سامان رکھنے والی جگہ میں بند کرکے تالا لگا دیا گیا، یہی وجہ ہے کہ حادثے میں خواتین اور بچوں کی بھی اموات ہوئیں لیکن ایک لاش بھی نہ مل سکی، کیوں کہ اُنھیں باہر نکلنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔

نوجوانوں کا ڈنکی لگاکر، یعنی غیرقانونی طریقے سے امریکی اور یورپی ممالک کا رُخ کرنا، یہ المیہ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ ترقی پذیر ممالک بالعموم اور جنگ زدہ ممالک بالخصوص افغانستان، شام، یمن، عراق ، لیبیا اور یوکرین سے تارکین وطن کا ایک سیلاب ہے جو یورپ جانے کا خواہشمند ہے اور اس مقصد کے لیے وہ کوئی بھی قیمت چکانے کو تیار ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ 10 ماہ کے دوران صرف پاکستان سے تقریبا نو لاکھ افراد ہجرت کرکے دیار غیر میں جا بسے ہیں جبکہ اس سے دگنی تعداد بھارتی شہریوں کی ہے۔

لوگ بڑے پیمانے پر ہجرت کیوں کر رہے ہیں؟

ماہرین بڑے پیمانے پر ہجرت کی بڑی وجہ مہنگائی، بے روزگاری، امیر غریب کا فرق، سیاسی عدم استحکام ، کساد بازاری اور جنگوں کی تباہی کو قرار دیتے ہیں، لیکن چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ یہ سب وجوہات ہوں گی تو کیا ان تمام وجوہات کو جواز بنا کر اپنی جان ہتھیلی پر رکھنا درست ہوگا۔ تھوڑی دیر کے لیے سوچیں کہ جس بڑے پیمانے پر ہجرت ہو رہی ہے کیا وہ ملک آپ کا بوجھ اُٹھا پائے گا؟ کیا وہاں روزگار پلیٹ میں رکھا ہوا ہے کہ آپ جائیں گے اور آپ کو فورا نوکری اور دیگر ضروریات زندگی میسر آجائیں گی ۔ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں ۔ میری بیرون ملک مقیم کچھ دوستوں سے بات ہوئی تو اُنھوں نے بتایا کہ تارکین وطن کے لیے مشکلات روز بروز بڑتی چلی جا رہی ہیں، ماضی میں آپ ٹیکسی چلاکر، پیٹرول پمپ یا کسی اسٹور میں کھڑے کر خود کو سیٹل کرلیتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے، تارکین وطن کے سیلاب کے باعث اب اس طرح کی  ملازمتیں بھی نہیں ملتیں اور پھر مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، یوکرین جنگ کے بعد عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہوچکا ہے۔  حکومتوں پر دباؤ ہے کہ وہ تارکین کے اس سیلاب کو روکے اور اگر اُن سے سختی بھی کرنی پڑے تو دریغ نہ کیا جائے۔ حالیہ واقعے کے بعد ایتھنز سمیت کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں ۔ مظاہرین حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ تارکین سے متعلق پالیسی میں تبدیلی لائے۔

یونان میں کشتی اُلٹنے کا واقعہ حکومتوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لائیں، دولت کی تقسیم منصفانہ بنیادوں پر ہو تاکہ نئی نسل کو روزگار کے بہتر مواقع میسر آسکیں ۔ جو لوگ ملک چھوڑ رہے ہیں اُن میں بڑی تعداد اسکلڈ ورکرز کی ہے، اُن میں سے کوئی ڈاکٹر ہے تو کوئی انجینئر ، کوئی زراعت میں ماہر ہے تو کوئی ٹیکنالوجی میں، جن کی تعلیم پر اس قوم کا سرمایہ خرچ ہوا ہے، پاکستان جہاں پہلے ہی اسکلڈ ورکرز نہیں ٹھہرتے، اگر بچے کچے بھی چلے گئے تو افرادی قوت کا ایسا بحران آئے گا جس پر کوئی بھی قابو  نہیں پاسکے گا۔

تحریر: محمد زبیر

شیئر

جواب لکھیں