‏28 ہزار 251 فٹ بلند، ماؤنٹ ایورسٹ سے تقریباً 800 فٹ چھوٹا، لیکن اُس سے کہیں زیادہ مشکل، دشوار اور خطرناک۔  کوہ پیما اسے کہتے ہیں 'ظالم پہاڑ' اور دنیا اسے جانتی ہے K2 کے نام سے۔

کے ٹو سر کرنے کی پہلی کامیاب کوشش ہوئی آج سے تقریباً 70 سال پہلے 1954 میں۔ اس مہم کی کہانی بڑی عجیب ہے، اِس میں سب کچھ ہے۔ ایک طرف بہادری، دلیری اور قربانی، تو دوسری طرف دھوکا، جھوٹ اور دغا بازی۔ اس کہانی کا ایک کردار ایسا ہے، جسے پاکستان میں بہت بلند مقام ملنا چاہیے تھا لیکن آج ہم اُن کا نام تک نہیں جانتے۔ آئیے آج آپ کو سناتے ہیں کہانی، امیر مہدی کی، داستان پاکستان کے ایک گمنام ہیرو کی۔

Raftar Bharne Do
امیر مہدی

کے ٹو دنیا کا خطرناک ترین پہاڑ سمجھا جاتا ہے، اسے سر کرنا ہمیشہ بہت مشکل رہا ہے۔ شروع میں کئی کوششیں کی گئیں، جو بُری طرح ناکام ہوئیں۔ جب مئی 1953 میں ماؤنٹ ایورسٹ پہلی بار سر ہوا تو کے ٹو فتح کرنے کی مہم بھی تیز ہو گئی۔ تب ‏1954 میں اٹلی نے کے ٹو سر کرنے کے لیے ایک بڑی ٹیم بھیجی ۔ یہ کتنی بڑی مہم تھی، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس کے صرف پورٹرز کی تعداد تقریباً 500 تھی ۔

پورٹر کسی بھی پہاڑ کو سر کرنے کی مہم کا اہم حصہ ہوتے تھے۔ تمام تر سامان بیس کیمپ سے لے کر اوپر تک پہنچانا انھی کا کام ہوتا ہے اور ان پورٹرز میں سب سے بڑا اور اہم نام تھا امیر مہدی کا۔ وہ 1953 میں نانگا پربت سر کرنے والی پہلی کامیاب مہم کا حصہ بھی رہے تھے۔ وہی مہم جس میں ہرمن بول(Hermann Buhl)نے ایسا کارنامہ انجام دیا تھا جسے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔وہ چوٹی سر کرنے کے بعد اندھیرے میں پھنس گئے۔ بڑی مشکل سے رات گزاری اور اگلی صبح پہاڑ سے نیچے اترے ۔ تب یہ امیر مہدی اور اُن کے دوست حاجی بیگ ہی تھے، جنھوں نے ہرمن بول کی مدد کی تھی۔

Raftar Bharne Do
آسٹریا کے مشہور کوہ پیما ہرمن بول، جنھوں نے سب سے پہلے 'قاتل پہاڑ' نانگا پربت سر کیا تھا۔ امیر مہدی اس مہم کا بھی حصہ تھے۔

آٹھ ہزار میٹر سے بلند کوئی بھی چوٹی ہو، اسے سر کرنا موت کو دعوت دینے کے برابر ہوتا ہے ، کیونکہ اتنی بلندی پر ایک عام انسان زندہ رہ ہی نہیں سکتا۔ یہاں آکسیجن بہت کم ہوتی ہے۔ اسی لیے اسے Death Zone کہا جاتا ہے۔ پھر شدید ٹھنڈ، طوفانی ہوائیں اور برفانی تودوں کا خطرہ الگ۔ ذرا سوچیں یہاں کھلے آسمان تلے رات گزارنی پڑے تو کیا ہوگا؟ امیر مہدی کو یہی کرنا پڑا، صرف ایک رات نے اُن کی زندگی بدل دی، ہمیشہ کے لیے۔

Raftar Bharne Do
کے ٹو 1954 مہم میں حصہ لینے والے کوہ پیما

ہوا یوں کہ کے ٹو کیمپین کے دوران دو کوہ پیما اکیل کمپونینی(Achille Compagnoni) اور لینو لاچادیلی(Lino Lacedelli) آٹھ ہزار میٹر تک پہنچ گئے۔ اب چوٹی سر کرنے کے لیے انھیں ضرورت تھی آکسیجن کی۔ یہ اہم کام دیا گیا والٹر بوناتی اور امیر مہدی کو۔ یہ کام جہاں بہت اہم تھا، وہیں دونوں کے لیے گولڈن چانس تھا کہ وہ بھی کے ٹو سر کر لیں۔ بوناتی اور مہدی نے غیر معمولی ہمت اور بہادری سے کام لیا، اور جب طے شدہ جگہ پہنچے تو اُن کے ساتھ ہوا بہت بڑا دھوکا۔ وہاں کوئی کیمپ موجود ہی نہیں تھا۔ دونوں نے بہت آوازیں دیں، بڑا تلاش کیا لیکن کوئی نہیں ملا۔ اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا، تب اچانک سو ڈیڑھ سو فٹ اوپر سے انھیں ایک ہلکی سی روشنی نظر آئی اور پھر آواز آئی "آکسیجن سلنڈر یہیں چھوڑ دو اور واپس چلے جاؤ" اور پھر روشنی بجھ گئی۔

Raftar Bharne Do
والٹر بوناتی کی ایک یادگار تصویر

مہدی اور بوناتی حیران رہ گئے ۔ بہت چیخے، چلائے، لیکن اوپر فیصلہ ہو چکا تھا: انھیں کیمپ میں جگہ نہیں دی جائے گی ۔ اندھیرا اتنا بڑھ چکا تھا وہ نہ واپس جا سکتے تھے، نہ ہی اوپر۔ دونوں بُری طرح پھنس چکے تھے۔ مہدی کی حالت زیادہ خراب تھی کیونکہ اُن کے پاس تو وہ لباس اور equipment تھا ہی نہیں جو غیر ملکی کوہ پیماؤں کے پاس ہوتا ہے۔ اس لیے نیچے جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ تب دونوں نے برف میں ایک گڑھا کھودا اور رات وہیں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ منفی 50ڈگری میں، 8100 میٹر کی بلندی پر یعنی ڈیتھ زون میں۔

معلوم تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ کسی انسان نے اتنی بلندی پر کھلے آسمان تلے رات گزاری ہو ۔ یہ ایک معجزہ ہی تھا کہ دونوں مرنے سے بچ گئے۔ صبح ہوئی تو مہدی اور بوناتی نے نیچے اترنا شروع کیا ۔ بوناتی کو تو کچھ نہیں ہوا، لیکن مہدی کی حالت بہت خراب تھی، انھیں پہلے اسکردو اور پھر راولپنڈی لے جایا گیا۔ فروسٹ بائٹ سے اُن کے پاؤں بُری طرح متاثر ہوئے تھے۔ بالآخر ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ اُن کے دونوں پیروں کی انگلیاں کاٹ دی جائیں۔ مہدی دوبارہ کبھی کسی پہاڑ پر قدم نہ رکھ سکے۔

Raftar Bharne Do
لاچادیلی اور کمپونینی کے ٹو سر کرنے کے بعد

اُدھر لاچادیلی اور کمپونینی نے اپنے منصوبے کو مکمل کیا، نیچے آئے، رکھے گئے آکسیجن سلنڈر اٹھائے اور کچھ دیر بعد کے ٹو سر کر لیا۔  تاریخ میں پہلی بار کسی انسان کے قدم کے ٹو کی بلندیوں پر پہنچے تھے۔ وہ الگ بات کہ وہ دونوں اس اعزاز کے لائق نہیں تھے۔ لاچادیلی اور کمپونینی یہیں نہیں رکے بلکہ نیچے آ کر الزام لگایا کہ بوناتی اور مہدی نے اُس رات اُن کے آکسیجن سلنڈر استعمال کیے تھے ۔ جس کی وجہ سے چوٹی سر کرنے کے دوران ہی اُن کی آکسیجن ختم ہو گئی تھی ، یعنی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے! بوناتی تو وضاحتیں دیتے ہی رہ گئے، لیکن اُن کی کسی نے نہ سنی ۔

آخر کمپونینی اور لاچادیلی نے ایسا کیوں کیا؟ اصل میں کمپیونی 40 سال کے تھے اور لاچادیلی 29 کے۔ ان کے مقابلے میں بوناتی جوان تھے، جن کی عمر صرف 24 سال تھی۔ تو انھیں خطرہ تھا کہ چوٹی سر کرنے کا موقع ملا تو بوناتی دونوں سے پہلے پہنچ جائیں گے اور وہ بغیر آکسیجن کے بھی سر کر لیں گے ، یوں اُن دونوں کا نام پیچھے رہ جائے گا۔ اس لیے کمپیونی اور لاچادیلی نے بوناتی اور مہدی کو دھوکا دینے کا فیصلہ کیا اور اسے چھپانے کے لیے پھر جھوٹ پر جھوٹ بھی بولے۔

حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ اگر امیر مہدی اور بوناتی اتنی بلندی تک آکسیجن سلنڈر نہ پہنچاتے تو دونوں کبھی چوٹی سر نہ کر پاتے۔ یوں کمپیونی اور لاچادیلی ہیرو بن گئے اور بوناتی اور مہدی ولن، اور اگلے 50 سال تک دنیا یہی سمجھتی رہی۔ یہاں تک کہ 2004 میں لاچادیلی نے اپنی کتاب میں حقیقت سے پردہ اٹھایا یعنی آدھی صدی گزر گئی تب جا کر سچ بولا ۔

Raftar Bharne Do
لاچادیلی کی کتاب، جس نے 50 سال بعد حقیقت سے پردہ اٹھایا

پھر 2007 میں اٹلی کی حکومت نے مہدی اور بوناتی دونوں کی خدمات کو تسلیم کیا، انھیں سرکاری اعزازات بھی دیے گئے، لیکن اب کس کام کے؟ مہدی کے انتقال کو 8 سال گزر چکے تھے۔ ایک بہادر  آدمی، ایک معصوم شخص اس دھوکے کا غم اور دکھ اپنے سینے میں لیے 1999 میں ہی انتقال کر گیا تھا۔

کمپیونی اور لاچادیلی کو تو کے ٹو سر کرنے پر بڑی شہرت ملی، بوناتی نے بھی کتابیں لکھ کر بہت پیسہ کمایا، لیکن اس پورے واقعے کا سب سے مظلوم کردار امیر مہدی تھے، جنھیں کچھ نہیں ملا، یہاں تک کہ آج خود پاکستان کے لوگ اپنے اس عظیم ہیرو کو نہیں پہچانتے۔

شیئر

جواب لکھیں