بھائی وہ زمانے گزر گئے جب بالی ووڈ میں صرف بنتی تھیں گھسی پٹی لو اسٹوریز۔ اب تو ایسا کوئی موضوع نہیں، جس پر وہاں فلم نہ بنتی ہو۔  کھیل اور کھلاڑیوں پر بھی بالی ووڈ میں بہت موویز بنی ہیں ، ایک سے بڑھ کر ایک۔ لیکن پاکستان میں کس بڑے کھلاڑی پر مووی بنی ہے؟ اور کون سے ایسے ہیں جن کی زندگی پر لازماً بننی چاہیے؟  یہ آج ہم رفتار اسپورٹس میں آپ کو بتائیں گے۔

ہو سکتا ہے آپ کے ذہن میں سب سے پہلے یہ سوال آئے کہ آخر مووی بنانا ضروری کیوں ہے؟  ایک زمانہ تھا کتاب کسی بھی کردار کو زندہ کر دیتی تھی، لیکن اب یہ کام کرتی ہے فلم۔  ایک اچھی فلم کسی بھی کردار کو امر کر دیتی ہے  اور کون ہے جو اپنے ہیرو کو فلمی ہیرو کے روپ میں نہیں دیکھنا چاہتا؟ دنیا یہ کام کر رہی ہے، بس ہم ہی نہیں کر رہے۔

پاکستان کی فلم انڈسٹری تو بہت پیچھے رہ گئی ہے لیکن انڈیا بہت آگے ہے۔ بالی ووڈ روایتی کہانیوں سے باہر آ چکا ہے، کچھ نیا کرنا چاہ رہا ہے۔  اس لیے پچھلے 20 سالوں میں ہمیں بہت سی ایسی موویز نظر آئی ہیں جو کھیل اور کھلاڑیوں پر بنی ہیں۔

کرکٹ پر دیکھیں تو 2016 میں ہم نے دیکھیں دو موویز: ایک ایم ایس دھونی کی زندگی پر بنائی گئی اور دوسری اظہر الدین پر۔  یعنی ایک طرف دھونی جیسا کُول کریکٹر جو ہر مشکل جھیلتا ہے، اپنے passion کو فالو کرتا ہے، آگے بڑھتا ہے اور پھر پورے انڈیا کا خواب پورا کرتا ہے، اسے ورلڈ کپ دیتا ہے  اور دوسری طرف ہیں اظہر الدین، ایک controversial کردار، لیکن فلم کے لیے بالکل پرفیکٹ۔

اظہر الدین ایک بہترین بیٹسمین تھے، جو انڈیا کے کیپٹن بنے اور پھر ایک بڑے اسکینڈل میں پھنسے، میچ فکسنگ اسکینڈل میں ۔ پھر کیا ہوا؟ اس کے لیے مووی دیکھیں تو بہتر ہے، ہم کچھ نہیں بتانے والے۔

انڈیا نے 1983 میں کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تھا ، ایک ایسی جیت، جس پر فلم بنانی چاہیے تھی اور بنائی بھی گئی: نام تھا '83' ۔ رنویر سنگھ بنے تھے کپل دیو لیکن وہ بھی اس مووی کو پٹنے سے نہ بچا سکے۔

یار مجھے تو یہ مووی بڑی اچھی لگی تھی، پتہ نہیں باکس آفس پر کیوں پٹ گئی؟

خیر، بالی ووڈ نے صرف کرکٹ پر ہی نہیں، دوسرے بھی بہت سے کھیلوں پر موویز بنائی ہیں ۔ انڈیا کی ہاکی ٹیم نے ‏1948 کے اولمپکس میں جیتا تھا گولڈ میڈل۔ تاریخ میں پہلی بار ہوتا پاکستان-انڈیا فائنل، لیکن پاکستان سیمی فائنل میں برطانیہ سے ہار گیا۔ بھارت نے فائنل میں اسی برطانیہ سے پاکستان کا بدلا لیا اور جیت لیا گولڈ میڈل۔  ‏2018 کی اس فلم کا نام تھا "گولڈ"، ہٹ بھی بہت ہوئی اور پیسہ بھی بڑا کمایا۔

بالی ووڈ نے ہاکی پلیئر سندیپ سنگھ کی زندگی پر بھی ایک فلم بنائی، نام تھا "سورما"۔ خاتون باکسر میری کوم کی زندگی پر فلم بنی۔ اسپرنٹر ملکھا سنگھ پر بھی  اور تو اور پان سنگھ تومار پر بھی۔ وہ تو واقعی ایک کریکٹر تھا، ایسا کریکٹر جس پر لازماً فلم بننی ہی چاہیے تھی: ایک سپاہی، ایک کھلاڑی، ایک ڈاکو۔ ہے نا عجیب و غریب کہانی؟  اسی لیے پان سنگھ تومار بہت ہٹ ہوئی ، ضرور دیکھیے گا آپ۔

اس کے علاوہ اور بھی بہت سی موویز ہیں جو کھلاڑیوں پر بنائی گئیں۔ اور ابھی تو ہم نے ڈاکیومنٹریز کا ذکر ہی نہیں کیا، اور نہ ہی اُن فلموں کی بات کر رہے ہیں جو سچی کہانیاں نہیں۔  ورنہ کہانی شروع ہوتی 'لگان' سے اور ختم ہوتی 'جرسی' پر۔

خیر، اس کے مقابلے میں پاکستان کی فلم انڈسٹری کہاں ہے؟ اس کا اندازہ ہمیں تو ہے ہی، آپ کو بھی اچھی طرح ہوگا۔ ہاں! انڈسٹری کی بحالی کی کوششیں ہو رہی ہیں، کچھ بہت اچھی فلمیں بھی بنی ہیں۔  اس لیے ہمیں تو امید ہے، ایک دن آئے گا ہمیں پاکستانی کھلاڑیوں پر بھی موویز دیکھنے کو ملیں گی۔ ایک ، دو کوششیں ہوئی بھی ہیں۔  مثلاً 2015 میں باکسر حسین شاہ کی زندگی پر ایک مووی بنی تھی، نام تھا "شاہ"۔  یہ ڈائریکٹر عدنان سرور کی فلم تھی۔ وہ صرف ڈائریکٹر ہی نہیں، رائٹر بھی تھے اور حسین شاہ کا مرکزی کردار بھی انھوں نے خود ادا کیا تھا۔ 

لیجنڈری باکسر حسین شاہ کی کہانی پڑھیں تو حیرت ہوتی ہے۔  ایک غریب بچہ، جو لیاری میں پلا بڑھا، بچپن ہی میں محنت مزدوری شروع کی اور پھر باکسنگ میں قدم رکھا۔ یہاں حسین شاہ آگے بڑھے، اولمپکس تک پہنچ گئے۔ 1988 کے سیول اولمپکس میں انھوں نے برانز میڈل جیت لیا۔  یعنی وہ کام کر دکھایا، جو کبھی کوئی پاکستانی باکسر نہیں کر سکا۔ لیکن اتنا بڑا کارنامہ کر کے بھی انھیں کچھ نہیں ملا ۔ ہم نے حسین شاہ کی قدر نہیں کی، جس کی وجہ سے وہ ملک ہی چھوڑ گئے۔ فلم بہت اچھی ہے، خاص طور پر بجٹ کے لحاظ سے دیکھیں تو ، لیکن ہٹ نہیں ہو سکی۔ 

شاید یہی وجہ ہے کہ کوئی پروڈیوسر ڈائریکٹر کسی کھلاڑی پر مووی نہیں بناتا۔

لیکن اب دنیا بدل چکی ہے، ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز کو آگے بڑھ کر سوچنا ہوگا اور فلم کو پرانے، روایتی اور گھسے پٹے موضوعات سے باہر لانا ہوگا۔ تبھی نئی نسل موویز کی طرف آئے گی، ورنہ اُن کے دیکھنے کے لیے دنیا جہاں کا content موجود ہے، وہ نیٹ فلکس کی دنیا سے کبھی باہر نہیں نکلیں گے۔

تو اب اگر کوئی پاکستانی کھلاڑیوں پر فلم بنانا چاہے تو کس پر بنائے؟ ابھی بتاتا ہوں ۔

ہماری تاریخ تو ایسے کریکٹرز سے بھری پڑی ہے، جنھوں نے بڑے بڑے کارنامے کیے۔ اسکواش دیکھیں تو اس میں پہلا نام آتا ہے ہاشم خان کا۔ اُن کی زندگی تو واقعی ایسی تھی کہ اس پر فلم ضرور بننی چاہیے۔

Raftar Bharne Do

ہاشم خان کی کی کہانی شروع ہوتی ہے ایک کلب میں بال بوائے کی حیثیت سے اور پہنچتی ہے اسکواش کا لیجنڈ بننے تک۔ انھیں انٹرنیشنل اسٹیج پر کھیلنے کا موقع تب ملا جب عمر گزر چکی تھی۔ پہلی بار 1951 میں برٹش اوپن کھیلنے گئے تو 37 سال کے تھے۔ اس عمر میں تو لوگ ریٹائر ہو جاتے ہیں لیکن ہاشم خان آئے اور آتے ہی چھا گئے۔ ایک نہیں، دو نہیں، سات مرتبہ برٹش اوپن جیتا۔

یہ ہاشم خان کی legacy تھی کہ اُن کے بعد پاکستان میں اسکواش کے ایک نہیں، کئی سپر اسٹارز پیدا ہوئے اور ملک نے سالوں تک اسکواش ورلڈ پر راج کیا۔ تو اپنی زبردست personality پر فلم کیوں نہ بنے بھائی؟ ضرور بننی چاہیے۔

ہاں! اگر کسی کرکٹر پر فلم بنانی ہے تو ہمارا پہلا ووٹ ہوگا فضل محمود کے لیے۔ پاکستان کے پہلے سپر اسٹار، جن کو دیکھ کر لگتا تھا وہ کرکٹر نہیں بلکہ کسی فلم کے ہیرو ہیں: نیلی آنکھیں، گورا رنگ، athletic باڈی۔ 

Raftar Bharne Do

لیکن سب سے بڑھ کر اُن کے پاس تھی ایسی کہانی، جو بالکل فلمی لگتی ہے۔ فضل محمود انڈیا کی کرکٹ ٹیم میں سلیکٹ ہونے ہی والے تھے، لیکن پارٹیشن ہو گیا اور انھوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ انڈیا سے نہیں پاکستان سے کھیلیں گے۔  ‏1952 میں پاکستان کو انٹرنیشنل کرکٹ اجازت ملی تو پہلی ٹیم میں فضل محمود شامل تھے  اور انھوں نے پہلا ٹؤر کیا انڈیا کا اور کھیلے اسی ٹیم کے خلاف، جس میں کبھی وہ خود کھیلنا چاہتے تھے۔

خیر، اسی ٹؤر میں پاکستان نے اپنی پہلی ٹیسٹ کامیابی بھی حاصل کی تھی، جس میں مین آف دی میچ تھے اپنے فضل محمود۔ پہلی اننگز میں پانچ اور دوسری میں سات وکٹیں، یعنی ایک میچ میں 12 شکار کیے اور بن گئے پاکستان کے پہلے کرکٹ سپر اسٹار۔

کرکٹ میں تو ایسے کھلاڑیوں کی بہت لمبی لائن ہے، جن کی زندگی پر اچھی فلم بن سکتی ہے: عمران خان ہیں، اُن کا جیتا گیا ورلڈ کپ ہے، جاوید میانداد جیسے اسٹریٹ فائٹر ہیں، وسیم اکرم اور وقار یونس جیسے شکاری ہیں اور پھر اپنے 'لالا' شاہد آفریدی بھی تو ہیں۔  اُن کا نام استعمال کر کے تو کسی نے ایک فلم بنا بھی لی تھی، "میں ہوں شاہد آفریدی" ۔ لیکن یہ فلم شاہد آفریدی پر نہیں تھی، بلکہ کہانی تھی ایک ایسے کھلاڑی کی جو شاہد آفریدی بننا چاہتا تھا۔ یعنی "لالا" پر ایک فلم بننی ابھی باقی ہے۔

لیکن آپ کو بتاؤں کس کرکٹر پر بنائی گئی فلم سب سے زیادہ ہٹ ہوگی؟  وہ ہیں کوئی اور نہیں، تیز سے بھی تیز، رفتار کا اصل نشان: شعیب اختر۔ 

شعیب اختر کی زندگی تو ایک پرفیکٹ فلم اسٹوری ہے۔ ایک چھوٹے سے گھر میں پیدا ہونے والا لڑکا، جس کے بڑے ہیلتھ ایشوز تھے، ڈاکٹر کہتا تھا یہ کبھی دوڑ نہیں سکے گا لیکن وہی لڑکا بن گیا دنیا کا تیز ترین بالر۔ ہے نا مزیدار کہانی؟

اور ہاں! شعیب نے اپنی زندگی کی یہ کہانی بتا بھی دی ہے، اپنی کتاب Controversially Yours میں۔ اس میں اُن کی زندگی کے سارے بڑے واقعات ہیں، famous ہونے سے پہلے کے بھی اور بعد کے بھی۔  ہر اتار، ہر چڑھاؤ، ہر controversy اور ہر مسالا، جو کسی فلم کے لیے ضروری ہوتا ہے، وہ سب ہے شعیب اختر کی کہانی میں۔

ویسے ہم نے سنا ہے ایک فلم بن بھی رہی ہے، جس کا نام ہوگا 'راولپنڈی ایکسپریس'۔  یہ فلم بنا رہے ہیں فراز قیصر صاحب اور ریلیز ہوگی نومبر 2023 میں۔ شعیب اختر کا کردار کون ادا کر رہا ہے؟ پتہ نہیں۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں عمیر جسوال شعیب اختر بنیں گے، کچھ کہہ رہے ہیں گوہر رشید یہ کردار نبھائیں گے۔

Raftar Bharne Do

اب دیکھتے ہیں یہ فلم کیسی بنتی ہے، اگر ویسی ہی بنی جیسی شعیب اختر کی کتاب ہے، تو یقین کریں بہت ہٹ ہوگی۔  اور امید ہے کہ اس فلم کے ہٹ ہونے سے پاکستان میں کھلاڑیوں پر موویز بنانے کا سلسلہ چل پڑے گا  ویسے آپ بتائیں آپ کس کھلاڑی پر فلم دیکھنا چاہتے ہیں؟ 

شیئر

جواب لکھیں