دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی، لیکن شاید آپ کو جان کر حیرت ہو کہ بھوک آج بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ کی نئی رپورٹ کے مطابق 58 ملکوں کے 25.8 کروڑ انسان بدترین بھوک کا سامنا کر رہے ہیں، اور یہ گزشتہ 7 سالوں کی میں غذائی عدم تحفظ (food insecurity) کی بدترین شرح ہے۔
اس صورت حال کی کئی وجوہات ہیں: روس یوکرین جنگ، مقامی تنازعات، موسمیاتی تبدیلی اور کووڈ- 19 کے معیشت پر پڑنے والے اثرات، ان سب کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن تمام تر چیلنجز کے باوجود ماہرین کہتے ہیں کہ آج بھی غذائی عدم تحفظ سے بچا جا سکتا ہے۔
📢Out now: New Global Report on Food Crises
— Global Network Against Food Crises (@fightfoodcrises) May 4, 2022
In 2021:
🔸193M people faced acute food insecurity – 40M more compared to 2020
🔸236M people were under stressed conditions - at the cusp of acute hunger
🔸26M children suffered from wastinghttps://t.co/e2LF0XIKVf#FightFoodCrises pic.twitter.com/TDvSgT9B2p
گلوبل رپورٹ آن فوڈ کرائسس 2023 کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں بھوک کے شکار افراد کی تعداد میں 33 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ مسلسل چوتھا سال ہے جس میں غذائی عدم تحفظ بڑھا ہے۔
رپورٹ کے مطابق شدید غذائی بحران سے دوچار 40 فیصد آبادی ایسی ہے جو صرف پانچ ملکوں میں رہتی ہے: کانگو، ایتھوپیا، افغانستان، نائیجیریا اور یمن۔ پھر سات ممالک؛ افغانستان، برکینافاسو، ہیٹی، نائیجیریا، صومالیہ، جنوبی سوڈان اور یمن؛ ایسے ہیں جنھیں گزشتہ سال میں قحط کا سامنا کرنا پڑا۔ جنوبی سوڈان میں یہ بحران اتنا زیادہ ہے کہ 11 سال کی بچیوں کی بھی شادی کروا دی جاتی ہے تاکہ ایک کھانے والا کم ہو جائے۔
بھوک کی بڑی وجوہات کیا؟
عالمی بھوک میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا گیا ہے روس اور یوکرین کی جنگ کو۔ یوکرین بہت اہم زرعی ملک ہے۔ صرف صومالیہ ہی کو لے لیں، جو اپنی 90 فیصد گندم یوکرین اور روس سے درآمد کرتا ہے۔ تو جنگ کی وجہ سے نہ صرف گندم کی فراہمی کو نقصان پہنچا ہے بلکہ قیمتیں بھی بہت تیزی سے بڑھی ہیں۔
یہ جنگ اپنی جگہ، کووڈ- 19 کے اثرات نے بھی بھوک میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔ اس وقت 27 ممالک ایسے ہیں جنھیں شدید بھوک کا سامنا ہے اور وہاں کے بھوک کے شکار افراد کی تعداد 8.4 کروڑ ہے۔ دوسری اہم وجہ ہے موسمیاتی تبدیلی جس نے 19 مالک میں 11.7 کروڑ لوگوں کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ پھر مقامی تنازعات ہیں کہ جن سے 12 ملکوں میں 5.7 کروڑ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔
سب سے زیادہ متاثرہ علاقے
سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے سب صحارن افریقہ۔ گزشتہ دو سال سے خطے کے کئی ممالک قحط کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ اس صورت حال کے بچوں پر بھی منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ خطے میں 5 سال سے کم عمر کے 3.5 کروڑ بچے ایسے ہیں، جن کا وزن اُن کے قد کے لحاظ سے بہت کم ہے کیونکہ وہ غذائیت کی کمی سے دوچار ہیں۔ ان میں سے 92 لاکھ ایسے ہیں جو شدید کمزوری سے دوچار ہیں، جو بچوں کی اموات کا ایک اہم سبب ہے۔
اب کیا ہوگا؟
یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ 2023 میں 15.3 کروڑ افراد کو انتہائی شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہوگا۔ شدید بھوک سے نمٹنے کے لیے ماہرین نے بین الاقوامی برادری سے فوری اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کوششوں میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت اختیار کرتے ہوئے اپنی غذائی پیداوار کو بچانے کے بارے میں آگاہی دینا، اپنی آمدنی سے سرمایہ کاری کرنے کے طریقے سکھانا اور سب سے بڑھ کر امن منصوبے دینا شامل ہے۔
پاکستان کہاں ہے؟
رپورٹ پاکستان کی بھی کچھ اچھی تصویر پیش نہیں کرتی۔ غذائی بحران کے شکار افراد کی تعداد 86 لاکھ بتائی گئی ہے، جس کی ایک بڑی وجہ پچھلے سال کا سیلاب بھی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں سے 52 لاکھ افراد کا تعلق سندھ کے 9 اضلاع سے ہے جبکہ 18 لاکھ خیبر پختونخواہ کے سات اضلاع کے اور 16 لاکھ بلوچستان کے 12 اضلاع کے ہیں۔
پاکستان میں جہاں قدرتی آفات کی وجہ سے یہ حالات پیدا ہوئے ہیں، وہیں معاشی اور عالمی حالات بھی بڑی وجہ ہیں۔