مقبوضہ جموں و کشمیر كے عوام 75 سال سے آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں، مگر بھارت ان کو بنیادی حق دینے کو تیار نہیں بلکہ مودی سرکار نے تو ظلم و بربریت اور حقوق کی پامالی کی بدترین داستانیں رقم کر دی ہیں۔ پر اب مقبوضہ کشمیر کا معاملہ مزید کھٹائی میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ وہاں لیتھیئم كے بہت بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔
بھارتی حکام كے مطابق جموں و کشمیر كے ضلع ریاسی سلال ہمانا سے لیتھیئم كے 60 لاکھ ٹن كے ذخائر ملے ہیں۔ یہ علاقہ سری نگر سے تقریباً 200 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔
لیتھیئم کہاں استعمال ہوتی ہے؟
لیتھیئم ایک کمیاب دھات ہے جو سمارٹ فون، لیپ ٹاپ سمیٹ دیگر برقی آلات کی ری چارج ایبل بیٹریاں بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔ الیکٹرک کار میں بھی ری چارج ایبل بیٹریوں کی ضرورت ہوتی ہے اِس لیے لیتھیئم کی ڈیمانڈ میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے اور اِس کی قیمت 75 ہزار ڈالر پر ٹن تک پہنچ گئی ہے۔
گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدّت سے نمٹنے كے لیے دُنیا بھر میں فوسل فیول سے چلنے والی گاڑیوں كے بجائے الیکٹرک گاڑیوں کو پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ بھارت بھی 2030 تک ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کی تعداد 30 فیصد تک پہنچانے کا خواہش مند ہے۔
بھارت میں الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریوں كے لیے لیتھیئم آسٹریلیا اور ارجنٹینا سے امپورٹ کی جاتی ہے۔ 2021 میں جنوبی ریاست کرناٹک سے بھی اِس قیمتی دھات كے ذخائر ملے تھے، تاہم ان کی مقدار اتنی نہیں تھی کہ بھارت کو اِس شعبے میں خود کفیل کر سکے۔
مقبوضہ کشمیر کو کیسے نقصان ہو گا؟
مقبوضہ وادی میں اتنے بڑے پیمانے پر ایسے ذخائر کی دریافت نے بھارت میں خوشی کی لہر دوڑا دی ہے۔ ان ذخائر سے نا صرف بھارت کی ملکی ضروریات پوری ہوسکیں گی بلکہ اسے ایکسپورٹ کرکے بھاری زرِ مبادلہ بھی کمایا جا سکے گا۔
یہی وجہ ہے کہ ماہرین اِس دریافت کو مقبوضہ کشمیر كے حَل میں ایک رکاوٹ كے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ مقبوضہ وادی میں ملنے والے ذخائر کی مالیت آج کل کی قیمت كے لحاظ سے تقریباً 450 ارب ڈالر بنتی ہے۔ مستقبل میں لیتھیئم کی ڈیمانڈ بڑھنے سے اِس میں اور اضافے کا امکان ہے۔ اِس كے علاوہ تازہ دریافت نے وہاں دیگر نایاب دھاتوں كے ملنے كے امکان بھی روشن کر دیے ہیں۔
اِس صورت میں بھارت جو پہلے ہی کشمیر كے وسائل پر قابض ہے۔ اتنی بڑی دولت چھوڑنے پر آسانی سے تیار نہیں ہو گا، یعنی اربوں ڈالر کی یہ دھات مقبوضہ وادی پر بندھی زنجیروں کو اور سخت کر دے گی۔
کشمیر کا ماحول تباہ ہونے کا خدشہ
اِس كے علاوہ لیتھیئم کی مائننگ سے مقبوضہ کشمیر میں ماحول کو نقصان پہنچنے کا بھی خدشہ ہے۔ لیتھیئم دھات زیر زمین سخت چٹانوں اور نمکین پانی كے ذخائر سے نکالی جاتی ہے۔ نکالنے كے بعد اسے ریفائن کرنے كے لیے فوسل فیولز سے جلایا جاتا ہے۔ اِس سے بھاری مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہوتا ہے۔ نمکین پانی باہر آنے سے ارد گرد کی زمین کاشت كے قابل بھی نہیں رہتی۔
اِس كے ساتھ ساتھ لیتھیئم کی مائننگ میں پانی کا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے . جس سے اس علاقے میں پانی کی شدید قلت پیش آ سکتی ہے۔ ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ بھارت جو پہلے ہی مقبوضہ کشمیر میں ڈیموگرافی تبدیل کرکے مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنا چاہتا ہے، ان ذخائر کی مائننگ كے نام پر ہندوؤں کی بڑے پیمانے پر آباد کاری بھی کر سکتا ہے۔