عالمی مالیاتی نظام میں ڈالر کا راج دہائیوں سے قائم ہے لیکن اب لگتا ہے اس کی بالادستی آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے کیونکہ بہت سے ملک اپنی کرنسی کو مضبوط کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

اِس وقت دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کے زرِ مبادلہ کے کُل ذخائر کا 60 فیصد امریکی ڈالر پر مشتمل ہے۔ دنیا کی آدھی بین الاقوامی تجارت، قرضے اور ان کی ضمانتیں ڈالر ہی کی صورت میں ہیں۔ فارن ایکسچینج کی مارکیٹ میں تقریباً 90 فیصد ٹرانزیکشنز ڈالر میں ہوتی ہیں۔ یعنی ہر طرف ڈالر کا راج، بلکہ قبضہ، ہے۔

لیکن آہستہ آہستہ اب ڈالر کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی ہے۔ 2014 میں روس اور چین نے اپنے کاروباری معاملات کو ڈالر کے بغیر انجام دینے کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما۔ یہ فیصلہ کریمیا پر قبضے کے بعد روس پر عائد ہونے والی پابندیوں کا نتیجہ تھا، جس نے روس کے سرکاری اداروں اور بینکوں کے لیے معاملات مشکل کر دیے تھے۔

ڈالر کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے سونے کی خریداری بھی بہت تیزی سے کی جا رہی ہے۔ 2022 میں روس اور ترکی کے مرکزی بینکوں نے ریکارڈ تعداد میں سونا خریدا ہے۔

چین نے تو روس ہی نہیں بلکہ فرانس سے بھی حال ہی میں پہلا ایل این جی سودا مکمل کیا ہے، جس کی ادائیگی یوآن میں ہوئی ہے۔ پھر سعودی عرب کا شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت کا ارادہ بھی اس سلسلے میں ایک اہم کڑی ہو سکتا ہے۔

اگر پچھلے 20 سالوں کا جائزہ لیں تو اس میں امریکی ڈالر تقریباً 12 فیصد مارکیٹ شیئر کھو چکا ہے، جو 71 فیصد سے گر کر 59 فیصد تک ہو چکا ہے۔

اب برازیل نے بھی اعلان کیا ہے کہ اس نے چین کے ساتھ براہ راست تجارت میں قومی کرنسی کے استعمال کا معاہدہ کیا ہے، یعنی امریکی ڈالر کا استعمال نہیں کریں گے۔ یوں امریکا کا سب سے بڑا حریف چین، اور لاطینی امریکا کی سب سے بڑی معیشت برازیل دونوں براہ راست تجارت یوآن اور ریال میں کریں گے، جو برازیل کی کرنسی ہے۔

چین اور انڈیا نے بھی بین الاقوامی تجارت پر امریکی ڈالر کے غلبے کو کم کرنے کے لیے اپنی کرنسیوں کے علیحدہ پروگرام شروع کر رکھے۔ انڈیا کے مرکزی بینک نے 18 ملکوں کے سینٹرل بینکس کو اجازت دی ہے کہ وہ روپے میں اکاؤنٹ کھول سکیں تاکہ باہمی تجارت بھارتی روپے میں ہو سکے۔

ایک معروف معاشی ماہر جم اونیل نے BRICS تنظیم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے رکن ممالک میں مزید اضافہ کرے اور ڈالر کی اجارہ داری کو چیلنج کرے۔ انھوں نے کہا ہے کہ BRICS میں میکسیکو، ترکی، مصر، انڈونیشیا، بنگلہ دیش، ویت نام، فلپائن اور پاکستان کو بھی شامل کیا جائے۔

سپر پاور امریکا کا ممکنہ سیاسی اور معاشی زوال دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہو سکتا ہے کیونکہ امریکا عسکری لحاظ سے بھی بہت طاقتور ملک ہے۔ کیا سیاسی اور معاشی میدان میں شکست کھانے کے بعد وہ عسکری آپشن کا انتخاب کرے گا؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا۔

شیئر

جواب لکھیں