سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف اپنی درخواست کے متعلق میڈیا کو ایک خط لکھا ہے۔ خط میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے وضاحت کی ہے کہ فوجی عدالتوں سے متعلق ان کا موقف بہت پرانا ہے۔ وہ خود سپریم کورٹ کے جسٹس کی حیثیت سے 2015 میں اس بارے میں فیصلہ دے چکے ہیں۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ کے بینچ میں ہونے پر یہ اعتراض کیا تھا کہ وہ جسٹس جواد ایس خواجہ کے رشتے دار ہیں، اس لیے مفادات کے ٹکراؤ کا خدشہ ہے۔

دوسری طرف میڈیا میں کچھ لوگ یہ باتیں پھیلا رہے ہیں کہ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے عمران خان اور ان کے وکیل حامد خان سے تعلقات ہیں اس لیے انھوں ںے فوجی عدالتوں کے خلاف پٹیشن دائر کی ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے ان قیاس آرائیوں کو رد کرتے ہوئے میڈیا کو ایک خط لکھا ہے۔ اس کا متن حسب ذیل ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کے خط کا متن

مجھے ایک نیک نام صحافی نے ایک دوست کے ذریعے پیغام بھجوایا ہے کہ میڈیا میں میرے بارے میں اور جو میں نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی ہے اس کے بارے میں کچھ چہ می گوئیاں اور خبریں گردش کر رہی ہیں۔ اس نیک نام صحافی جس کی میں دل سے عزت کرتا ہوں نے مشورہ دیا ہے کہ میں اس بارے میں کچھ کہوں۔

پاکستان میں میڈ یا کتنا خود مختار اور آزاد ہے اس بارے میں میری رائے کچھ اچھی نہیں ہے میڈیا کتنا سہما ہوا ہے یا میڈیا نے خود اپنی آزادی پر کسی حد تک سمجھوتا کر لیا ہوا ہے وہ عوام کے سامنے ہے۔ اس حوالے سے میں اپنی کتاب Slaughtered Without a Knife میں ذکر کر چکا ہوں ۔ اپنی اس رائے کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ کے دھارے میں اس وقت بحیثیت قوم ہم مجموعی طور پر ایک نہایت اہم اور نازک موڑ پر ہیں۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آنے والی نسلوں کے لیے میں کچھ ضبط تحریر میں لے آؤں۔

جہاں تک فوجی عدالتوں میں عام سویلین پر مقدمہ چلانے کا تعلق ہے اس بارے میں میرا موقف آج کا نہیں ہے اور نہ ہی موجودہ حالات و واقعات کے زیر اثر بنا ہے۔ سنہ 2015 میں راولپنڈی بار ایسوسی ایشن بنام وفاق پاکستان (401 PLD 2015 SC) میں، میں نے بطور حج سپریم کورٹ جو موقف اپنایا تھاوہ ہماری ملک کی اور عدلیہ کی تاریخ کا حصہ ہے 2015 میں بھی میری رائے یہی تھی کہ عام سویلین شہریوں کا فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانا غیر آئینی ہے کیونکہ ایسا فعل شہریوں کے آئینی حقوق سے متصادم ہے اس لیے جو میڈیا کے لوگ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ میں نے فوجی عدالتوں کے خلاف آج کوئی نیا موقف پیش کیا ہے جو کسی ذاتی یا خانگی مصلحت کے تحت ہے ایسے صحافی یا تو تاریخ سے ناواقف ہیں یا وہ عوام الناس کو جان بوجھ کر گمراہ کر رہے ہیں۔

مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ میں نے اپنی درخواست سابق وزیر اعظم عمران خان کی حمایت میں دائر کی ہے تو یہ بات غلط ہے۔ عمران خان کے وکیل حامد خان سے میری رفاقت چھیالیس برس پر محیط ہے۔ وہ انتہائی معتبر قانون دان ہیں اور قابل تکریم ہیں۔ نہ تو انھوں نے اپنی درخواست کے بارے میں مجھ سے بات کی اور نہ میں نے اپنی در خواست کا ان سے ذکر کیا۔

عمران خان صاحب کو میں تقریبا 60 سال سے جانتا ہوں لیکن پچھلے کم از کم 50 سال سے میری ان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی، ماسوائے ایک دفعہ جب آج سے تقریبا 15 سال پہلے ایک شادی کی تقریب میں ہم ملے تھے۔

میری درخواست مفاد عامہ میں دائر کی گئی ہے اور کسی اعتبار سے وہ حامد خان کی دائر کردہ درخواست سے مختلف بھی ہے میں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ میڈیا عوام کے حقوق کا امین ہے لہذا عوام کی امانت ان تک دیانتداری کے ساتھ پہنچائے۔ اس کے بعد میری ان کے حق میں ایک دعا ہے کہ وہ کلام پاک کی حکیمانہ ہدایت جو سورہ حجرات میں دی گئی ہے اس پر ایمان لے آئیں اور عمل پیرا ہو جائیں۔

اے ایمان والو! اگر تمھارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو، پھر تم اپنے کیے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔ (سورہ حجرات، آیت نمبر 6)

اللہ تعالیٰ سب کو ایمان کی دولت دے۔ آمین!

نوٹ: ( میڈیا کے لیے اس بابت یہ میری پہلی اور آخری تحریر ہے)

شیئر

جواب لکھیں