اس بار ستمبر میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں جن کے ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

سب سے پہلے تو صدر مملکت عارف علوی کی 5 سالہ مدت 9 ستمبر کو ختم ہورہی ہے۔ عارف علوی کا شمار عمران خان کے پرانے ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے 1996 میں پی ٹی آئی جوائن کی تھی۔  2013 اور 2018 کے الیکشن میں وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ  کراچی سے ایم این اے منتخب ہوئے مگر صدر نامزد ہونے کے بعد انھوں نے اپنی سیٹ سے استعفا دے دیا تھا۔ 9 ستمبر 2018 کو انھوں نے پاکستان کے تیرھویں صدر کی حیثیت سے منصب سنبھالا تھا۔

اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے پی ڈی ایم نے کئی بار کوشش کی صدر عارف علوی عہدہ چھوڑ دیں مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ 9 ستمبر کو مدت پوری ہونے کے بعد کیا وہ عہدے پر رہیں گے؟ آئین کے مطابق اگلے صدر کے عہدہ سنبھالنے تک وہ اپنے امور انجام دیتے رہیں گے اور انھیں منصب چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا تاہم اگر وہ خود اس عہدے سے الگ ہونا چاہیں تو یہ ان کی صوابدید ہے۔

عارف علوی توقعات پوری نہ کرسکے؟

ویسے تو صدر مملکت کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں رہتا مگر پاکستان میں زمینی حقائق یہی ہوتے ہیں کہ ہر حکمران جماعت ایسا صدر لانا چاہتی ہے جو اس کے مفادات کا تحفظ کرے۔ صدر عارف علوی سے بھی توقع کی جارہی تھی کہ ان کے اقدامات سے پی آٹی آئی کو فائدہ ہوگا۔ مگر پی ڈی ایم کے سولہ مہینے میں ایسا کچھ نہیں ہوسکا۔ عارف علوی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا، معاملہ سپریم کورٹ میں گیا مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ اب ان سے یہ امید کی جارہی تھی کہ وہ ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں گے مگر انھوں نے اب تک ایسا نہیں کیا ہے۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ پر صدر نے دستخط نہیں کیے مگر ان کے حکم کے باوجود ان کے اسٹاف نے یہ بل واپس نہیں بھیجے اور یہ قانون بن گئے جس کے تحت خصوصی عدالتیں قائم کرکے عمران خان کے خلاف سائفر سازش کیس شروع ہوچکا ہے۔ عارف علوی متاثرین سے معافی مانگنے کے سوا کچھ نہ کرسکے۔

دیکھنا یہ ہے کہ عارف علوی 9 ستمبر کے بعد بھی منصب پر رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں یا نہیں، اگر انھوں نے  ہدہ چھوڑ دیا تو آئین کے مطابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی قائم مقام صدر بن جائیں گے۔ یعنی پھر ملک کے صدر اور وزیراعظم دونوں کا تعلق بلوچستان سے ہوگا۔

عمر عطا بندیال کے فیصلے یاد رکھے جائیں گے

صدر کے بعد جس اہم عہدے کی مدت پوری ہورہی ہے۔ وہ ہے پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال جنھوں نے 2 فروری 2022 کو عہدہ سنبھالا تھا۔ وہ 16 ستمبر کو ریٹائر ہوجائیں گے۔ ان کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس کا منصب سنبھالیں گے۔

عارف علوی عمر عطا بندیال

عمر عطا بندیال نے اپنے دور میں کئی اہم فیصلے سنائے۔ ان میں سے کئی فیصلے تحریک انصاف کے خلاف بھی تھے۔ مثال کے طور پر 3 اپریل کو ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی رولنگ دی تھی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اس رولنگ کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے اسمبلی بحال کردی تھی جس کے بعد عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تھی۔ دوسری طرف پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کے فیصلے پر پی ڈی ایم نے انھیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔

9 مئی کو توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی گرفتاری پر بھی چیف جسٹس نے نوٹس لیا تھا اور اگلے ہی روز انھیں رہا کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ عمر عطابندیال کے اس فیصلے کے خلاف بھی  پی ڈی ایم نے سخت احتجاج کیا۔ جے یو آئی نے سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دیا۔ مریم نواز بھی عوامی جلسوں میں نام لے کر چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر تنقید کرتی رہی ہیں۔ عمران خان کی رہائی پر مریم نواز نے لکھا تھا کہ ’چیف جسٹس صاحب! آپ اب عدلیہ ہی نہیں، آئین و قانون نظام انصاف اور ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ ملکی تقدیر سے کھیلنے والے ایک دہشتگرد کے سہولت کار بننے کے بعد آپ اپنا وقار کھو چکے ہیں- آپ اپنی کرسی کو عمران کی سیاست کے لیے استعمال کر رہے ہیں تو اب سیاسی رد عمل کے لیے تیار رہیں۔

سیاسی تجزیہ کار نواز شریف کے وطن واپس نہ آنے کی وجہ بھی عمر عطا بندیال کا خوف قرار دیتے ہیں۔ اسی لیے شہباز شریف کی حکومت قائم ہونے کے باوجود بڑے میاں صاحب کی واپسی کی تاریخ پر تاریخ دی جاتی رہی مگر وہ واپس نہ آئے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ن لیگ کو ڈر تھا کہ عمر عطا بندیال کے چیف جسٹس رہتے ہوئے نواز شریف کو مطلوبہ ریلیف نہیں مل سکتا تھا اور انھیں وطن واپس آکر جیل جانا پڑتا۔ اس کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز کو بھی غیرآئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے بعد نواز شریف کی اپیل کے امکانات بھی دم توڑ گئے تھے۔

اس سلسلے میں ایک جملہ بھی بہت مشہور ہوا جسے گزشتہ دنوں اعتزاز احسن نے بھی دہرایا کہ دنیا کی ایک تہائی آبادی حضرت عیسیٰ کا انتظار کر رہی ہے جبکہ ن لیگ اور پی ڈی ایم قاضی فائز عیسیٰ کا انتطار کر رہی ہیں۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں بنچ نے نیب ترامیم کے خلاف کیس کا فیصلہ بھی محفوظ کر لیا ہے جو وہ ریٹائرمنٹ سے پہلے سنائیں گے۔ تجزیہ ہے کہ نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا جائے گا جس کے بعد شہباز شریف، زرداری اور دیگر رہنماؤں کے خلاف نیب کیس دوبارہ کھل جائیں گے۔

خیر اب دیکھتے ہیں کہ قاضی فائز عیسیٰ کے منصب سنبھالنے کے بعد نواز شریف واپس آتے ہیں یا نہیں اور اگر واپس آتے ہیں تو انھیں اعلیٰ عدالت سے کتنا ریلیف ملتا ہے۔

ڈی جی آئی ایس آئی کو ایکسٹیشن ملے گی یا نہیں؟

ملک میں ایک اور اہم عہدے پر تبدیلی بھی متوقع ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم 18 ستمبر کو ریٹائر ہورہے ہیں۔

لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم تعیناتی سے پہلے ہی خبروں میں آچکے تھے۔ عمران خان جنرل فیض حمید کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر برقرار رکھنا چاہتے تھے لیکن اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ندیم انجم کو اس عہدے پر لانا چاہتے تھے۔ عمران خان اور قمر باجوہ پر سب سے پہلے اختلاف اسی معاملے پر ہوا تھا جس میں عمران خان کو پسپا ہونا پڑا تھا۔

جنرل فیض حمید ن لیگ کی آنکھوں میں سب سے زیادہ کھٹکتے تھے اور نواز شریف اور مریم نواز جلسوں میں نام لے کر ان پر تنقید کرتے تھے۔ ندیم انجم نے 20 نومبر 2021 کو منصب سنبھالا تھا۔ اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور عمران خان نے حقیقی آزادی تحریک شروع کی جس میں انھوں نے قمر جاوید باجوہ کو اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمے دار قرار دیا۔

اکتوبر 2022 میں عمران خان نے ارشد شریف کی شہادت کے بعد حقیقی آزادی مارچ ٹو کا اعلان کیا۔ اس دوران 27 اکتوبر 2022 کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ڈی جی آئی ایس آئی نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ پریس کانفرنس کی۔ اس پریس کانفرنس میں انھوں نے عمران خان کا نام لیے بغیر ان پر سخت تنقید کی تھی۔ ندیم انجم نے دعویٰ کیا کہ عمران خان نے اپنی حکومت بچانے کے لیے جنرل قمر جاوید باجوہ کو تاحیات ایکسٹینشن دینے کی پیش کش کی تھی لیکن انھوں نے انکار کردیا۔

اس پریس کانفرنس کے اگلے دن عمران خان کا حقیقی آزادی مارچ ٹو لاہور سے شروع ہوا۔ 3 نومبر کو وزیرآباد میں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ عمران خان نے خود پر حملے کا الزام آئی ایس آئی کے میجر جنرل فیصل نصیر پر عائد کیا جنھیں وہ اس سے پہلے تقریروں میں ڈرٹی ہیری کہہ کر پکارتے تھے۔ اس دوران آرمی چیف کے عہدے پر بھی تبدیلی ہوئی اور جنرل عاصم منیر نے عہدہ سنبھال لیا۔

ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم اس کے بعد تو کبھی منظر عام پر نہیں آئے لیکن عمران خان اور پی ٹی آئی اپنی سیاسی مشکلات کے لیے اسٹیبلشمنٹ اور آئی ایس آئی کے افسروں کو  ذمے دار ضرور ٹھہراتے رہے۔ اب یہ خبریں گرم ہیں کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع دی جارہی ہے۔  کئی صحافیوں نے یہ دعویٰ کیا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر ندیم انجم کو توسیع دینا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں اعلان جلد کردیا جائے گا۔ دوسری طرف کچھ صحافی ان دعووں کی تردید کرتے ہیں۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کا بھی فیصلہ جلد ہوجائے گا۔

شیئر

جواب لکھیں