عمران خان کی تقریر نشر کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ پاکستان میں یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی سیاسی رہنما پر ایسی پابندی لگائی گئی ہو۔ کہتے ہیں تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے۔ دنیا کے کسی اور ملک میں ایسا ہو یا نہ ہو پاکستان میں تو اکثر ایسا ہوتا ہے۔

ہمارے سیاست دان اور حکومتیں تاریخی غلطیوں سے کچھ سیکھنے کے بجائے وہ تاریخی غلطیاں دہرانا پسند کرتے ہیں۔ مخالفین کو ہرانے، دبانے اس کی آواز بند کرنے کے لیے 50 ساٹھ سال پہلے جو ہتھکنڈے استعمال ہوتے تھے آج بھی ویسے ہی ہتھکنڈے استعمال ہورہے ہیں۔ وقت بدلتا ہے تو فقط چہرے اور کردار بدل جاتے ہیں۔

سیاسی مخالفین کو غدار قرار دینے کی روایت کا آغاز پاکستان بننے کے چند سال بعد ہی ہوگیا تھا۔ اسی طرح سیاسی مخالفین کو مختلف الزامات لگا کر جیل بھیجنے کا رواج بھی تقریباً اتنا ہی پرانا ہے۔

آمریت میں پابندی کا رجحان بڑھا

آمرانہ ادوار میں اظہار رائے اور آزادانہ نقل و حرکت کی آزادی پر بھی قدغن لگانے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ ایوب خان کے دور میں ایم پی او کے تحت کمشنروں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی فرد کو 3 مہینے کے لیے نظربند کرسکتا تھا۔ اس اختیار کے تحت کئی سیاست دانوں، دانشوروں، شاعروں کو گھروں یا جیلوں میں بند کردیا جاتا تھا۔ مخالفین کی آواز دبانے کے لیے حکومت کے خلاف بات کرنے والے اخباروں اور رسالوں کو بند کرادیا جاتا تھا۔ ان کے مدیروں کو قید کی سزا دی جاتی تھی۔

پرائیوٹ ٹی وی چینلوں کی آمد سے پہلے ملک میں صرف پی ٹی وی کی اجارہ داری تھی جو صرف سرکار کی مدح سرائی کے لیے وقف تھا۔ سرکاری ٹی وی پر اپوزیشن کے رہنماؤں کی تقاریر یا جلسے دکھانے کا کوئی تصور تک نہیں تھا۔ ایسے میں لے دے کر وہ اخبارات اور جرائد ہی رہ جاتے تھے جو اپوزیشن کی آواز کو ملک کے طول و عرض میں عوام تک پہنچاتے تھے۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ سیاستدان شہر شہر جا کر مختلف علاقوں میں جلسے جلوسوں کے ذریعے اپنی بات لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ ان تقریروں کی ویڈیو کیسیٹیں بنا کر بھی اپنے پیغام کا ابلاغ کیا جاتا تھا۔

سب سے پہلے پابندی کس لیڈر پر لگی؟

پرویز مشرف کے دور میں پرائیوٹ ٹی وی چینل آئے تو سیاست دانوں کو عوام سے رابطے کا ایک مؤثر طریقہ مل گیا۔ کسی ایک شہر میں ہونے والے جلسے یا پریس کانفرنس کو پورے ملک کے شہری دیکھتے اور سنتے ہیں۔ سرکاری ٹی وی تو اب بھی اپوزیشن کی تقریبات اور تقریریں نہیں دکھاتا تھا لیکن نجی چینل اپوزیشن کے رہنماؤں کو بھی بھرپور کوریج دینے لگے تھے۔ ان نجی چینلوں کے ذریعے نہ صرف سیاسی رہنما بلکہ صحافی بھی حکومت پر کھل کر تنقید کرنے لگے تھے۔ اسی دور میں میڈیا پر پابندی کا سلسلہ بھی شروع ہو۔ مشرف نے کئی صحافیوں کے پروگراموں پر پابندی لگائی۔

کسی سیاسی رہنما کی تقریر دکھانے اور سنانے پر سب سے پہلے پابندی نواز شریف کے دور میں لگی۔ 22 اگست 2016 کو متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین نے ایک متنازع تقریر کی۔ اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر الطاف حسین کے بیانات میڈیا میں چلانے پر پابندی لگادی گئی۔ ٹی وی چینلوں نے اس پابندی پر اس حد تک عمل کیا کہ وہ الطاف حسین کا نام لینے سے بھی احتراز کرنے لگے تھے۔ الطاف حسین پر ریاستی اداروں کے خلاف بیانات دینے کا الزام لگایا گیا تھا۔

Raftar Bharne Do



نواز شریف ہی کے دور میں تحریک لبیک کے احتجاج کی کوریج اور رہنماؤں کی تقریریں نشر کرنے پر بھی پابندی لگائی گئی۔

عمران خان کے دور میں پہلے آصف زرداری، مریم نواز، فضل الرحمان کے انٹریوز نشر ہونے سے روکے گئے۔ 2019 میں اسحاق ڈار اور 2020 میں نواز شریف کے بیانات نشر کرنے پر پابندی لگائی گئی۔

اسحاق ڈار اور نواز شریف پر پابندی کے لیے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ یہ دونوں اشتہاری ملزمان ہیں اس لیے ان کے بیانات نشر نہیں کیے جاسکتے۔ تاہم کہا یہ جاتا ہے کہ نواز شریف کی تقریریں دکھانے پر اس لیے پابندی لگائی گئی کیونکہ انھوں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کا نام لے کر تنقید کی تھی۔

عمران خان پر پہلے بھی پابندی لگی تھی

اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد انھوں نے شہر شہر جلسے شروع کیے۔ وہ نام لیے بغیر اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے تھے۔ اگست 2022 میں شہباز گل کی گرفتاری اور مبینہ تشدد کے بعد عمران خان نے ایک تقریر کی تھی۔ اس تقریر میں انھوں نے شہباز گل کا ریمانڈ دینے والی خاتون مجسٹریٹ کے خلاف قانونی کارروائی کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد پیمرا نے عمران خان کی تقاریر لائیو دکھانے پر پابندی لگادی تھی۔

Imran Khan

عمران خان نے بعد میں خاتون مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہو کر معافی مانگ لی تھی جس کے بعد ان پر سے پابندی ہٹالی گئی تھی۔

اب پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے بیانات لائیو یا ریکارڈڈ دکھانے پر دوبارہ پابندی لگادی گئی ہے۔ ان پر بھی ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیزی اور نفرت پھیلانے کا الزام لگایا گیا ہے۔

نواز شریف سے پابندی ختم

 دوسری جانب پی ڈی ایم حکومت بننے کے بعد سے نواز شریف کی تقریریں دکھانے پر سے پابندی ختم ہوچکی ہے۔ مریم نواز نہ صرف سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید بلکہ سپریم کورٹ کے ججوں کا نام لے کر ان پر تنقید کرتی ہیں۔ مگر ان کی تقاریر دکھانے پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ عمران خان پر پابندی کو سیاسی ہتھکنڈا اور دہرا معیار قرار دیتے ہیں۔

اسی طرح لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں اس طرح کی پابندیاں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ پہلے بھی جب عمران خان کی تقاریر ٹی وی پر دکھانے پر پابندی لگائی گئی تھی تو لاکھوں لوگوں نے یوٹیوب، فیس بک اور ٹوئیٹر پر ان کی تقریریں دیکھنی شروع کردی تھیں۔ عمران خان اس وقت پاکستان کے مقبول ترین سیاسی لیڈر ہیں اور وہ سوشل میڈیا پر بھی سب زیادہ فالو کی جانے والی شخصیت ہیں۔ ایسے میں حکومتی پابندی کا کوئی خاص فائدہ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ مگر شاید یہ مریم نواز کی وہ خواہش پوری کرنے کی کوشش ہو جس میں انھوں نے کہا تھا کہ جو جو کچھ نواز شریف کے ساتھ ہوا وہ عمران خان کے ساتھ بھی ہونا چاہیے

شیئر

جواب لکھیں