پاکستان تحریکِ انصاف نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے اپنے تمام امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے۔ اس فہرست میں حیرت انگیز طور پر فواد چوہدری، حماد اظہر اور شہباز گل تینوں شامل نہیں جس کا واضح مطلب یہ نظر آتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر پی ٹی آئی کی جانب سے وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی ہی ہوں گے۔

عدالتی احکامات کے مطابق پنجاب اسمبلی کے انتخابات 14 مئی کو ہونے ہیں، لیکن فی الحال اس کے ہونے یا نہ ہونے کے امکانات تقریباً برابر ہیں۔ مرکزی اور پنجاب کی نگران دونوں حکومتیں انتخابات کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کر رہی ہیں جبکہ پاکستان تحریکِ انصاف مکمل طور پر تیار نظر آتی ہے۔ اس کے تمام امیدوار آج اپنے متعلقہ ریٹرنگ آفیسرز کے پاس اپنا ٹکٹ جمع کروائیں گے۔

پنجاب اسمبلی انتخابات: پی ٹی آئی امیدواروں کی مکمل فہرست

اہم امیدوار

پی ٹی آئی نے ممکنہ وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کو پی پی 34 گجرات VII سے امیدوار کھڑا کیا ہے جبکہ چوہدری مونس الٰہی پی پی 32 گجرات V سے امیدوار ہوں گے۔

دیگر اہم امیدواروں میں میاں اسلم اقبال پی پی 170 لاہور XXVII سے، عثمان ڈار پی پی 38 سیالکوٹ IV، ڈاکٹر یاسمین راشد پی پی 173 لاہور XXX، شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی پی پی 217 ملتان VII اور سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار پی پی 286 ڈیرہ غازی خان II سے امیدوار ہوں گے۔ویسے حیران کن طور پر جمشید دستی پی پی 274 مظفر گڑھ VII اور غلام بی بی بھروانہ کو پی پی 126 جھنگ III سے ٹکٹ دیے گئے ہیں۔ فیاض الحسن چوہان کو پی پی 17 راولپنڈی XII سے ٹکٹ ملا ہے۔

بڑے نام، جنھیں ٹکٹ نہیں ملا

جنھیں ٹکٹ نہیں ملا ان میں کچھ بڑے نام بھی شامل ہیں۔ مثلاً مراد راس کو لاہور سے، عبد الحئی دستی کو مظفر گڑھ، ممتاز احمد کو فیصل آباد، حسین گردیزی کو خانیوال، صمصام بخاری کو ساہیوال اور یاسر ہمایوں کو چکوال سے امیدوار کھڑا نہیں کیا گیا۔ یہ تمام اراکین ماضی میں وزیر رہ چکے ہیں لیکن اب نئے سیٹ اپ کا حصہ نہیں ہوں گے۔

کُل نشستیں کتنی؟

پنجاب اسمبلی میں کل 371 نشستیں ہیں جن میں سے 297 پر انتخابات کے ذریعے اراکین کا انتخاب ہوتا ہے۔ فی الحال صرف 12 ایسی ہیں جن پر پی ٹی آئی امیدوار کا اعلان ہونا ابھی باقی ہے۔ 285 نشستوں پر امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے جا چکے ہیں۔

Raftar Bharne Do

‏2018 کے صوبائی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے کُل 284 امیدوار کھڑے کیے تھے جن میں سے 122 کامیاب ٹھیرے تھے جبکہ 25 آزاد اور بعد میں خصوصی نشستوں پر خواتین اور غیر مسلم اراکین اور اتحادیوں کو ملا کر کل 184 اراکین کے ذریعے اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی تھی۔

یہ اسمبلی ٹوٹی کیسے؟

اپریل 2022 میں قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو جانے کے بعد ملک میں ایک سنگین سیاسی بحران پیدا ہوا۔ اس دوران پنجاب میں پی ٹی آئی کے 25 اراکین اسمبلی حزبِ اختلاف کے ساتھ مل گئے اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی، جو کامیاب ہوئی اور مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی مدد سے وزیر اعلیٰ بن گئے۔

بعد ازاں، سپریم کورٹ نے  آئین کے آرٹیکل 63-اے کے تحت اپنی جماعت کے خلاف ووٹ دینے والے اراکین کو نا اہل قرار دے دیا۔ ان نشستوں پر انتخابات میں بھی تحریک انصاف واضح طور پر جیتی اور حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ چلی گئی۔ اب پنجاب کے نئے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی تھے۔ جنھوں نے عمران خان کے کہنے پر گورنر پنجاب کو ایک سمری بھیجی، جس کی بنیاد پر 14 جنوری 2023 کو پنجاب اسمبلی تحلیل کر دی گئی اور نگران سیٹ اپ آ گیا۔

شیئر

جواب لکھیں