نیوزی لینڈ کا دورۂ پاکستان جہاں ورلڈ کپ 2023 کی تیاریوں کے لیے بہت اہم تھا، وہیں یہ بابر اعظم کے لیے بھی ایک بڑا امتحان تھا۔ کیونکہ جب سے نجم سیٹھی پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنے ہیں، تب سے بابر پر خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اس سیریز سے پہلے جو کچھ ہوا، اس سے بھی ثابت ہو چکا تھا کہ بابر کے لیے حالات اتنے سازگار نہیں۔

تنقید کا جواب کارکردگی سے

لیکن نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز میں ‏4-1 سے کامیابی، پھر پاکستان کا رینکنگ میں نمبر وَن تک پہنچنا، چاہے دو دن کے لیے ہی سہی، بابر الیون کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ اس میں خود کپتان کا اپنا کردار بھی بہت اہم رہا۔ پہلے ون ڈے میں 49 رنز بنانے کے بعد اگلے تینوں میچز کی فتوحات میں بابر اعظم نے 65، 54 اور 107 رنز کی اننگز کے ساتھ اپنا حصہ ڈالا۔ انفرادی طور پر جہاں کئی سنگِ میل عبور کیے، وہیں خود پر ہونے والی ہر تنقید کا جواب بھی اپنی کارکردگی سے دیا۔

کپتان خراب، لیکن قسمت اچھی

بابر اعظم خراب کپتانی کا خاصا لمبا ریکارڈ رکھتے ہیں، خاص طور پر ہوم گراؤنڈ پر، جہاں وہ آسٹریلیا کے بعد انگلینڈ سے بھی ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی سیریز ہارے، بلکہ نیوزی لینڈ کے پچھلے دورے میں بھی ٹیسٹ اور ون ڈے سیریز میں شکست کھائی تھی۔ جس کے بعد اُن کی کپتانی پر بڑا اعتراض کیا گیا۔ پھر نئی انتظامیہ نے افغانستان کے خلاف سیریز میں بابر کو "آرام" دینے کا فیصلہ کیا اور شاداب کو کپتان بنایا۔

اب اسے بابر کی قسمت کہیں یا کچھ اور، لیکن پاکستان افغانستان سے یہ سیریز بُری طرح ہار گیا۔ یوں بابر اعظم کو موقع ملا نیوزی لینڈ کے خلاف بہت کچھ ثابت کرنے کا اور انھوں نے کِیا بھی۔

لیکن بابر کا اصل امتحان ابھی باقی ہے۔ یہ ورلڈ کپ کا سال ہے، جو 5 اکتوبر سے 19 نومبر تک بھارت میں کھیلا جائے گا۔ 2019 میں پاکستان اپنی خراب قسمت کی وجہ سے سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہو گیا تھا، لیکن پچھلے چند سالوں سے ون ڈے فارمیٹ میں جو کارکردگی دکھائی ہے، اس کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان ورلڈ کپ کے لیے فیورٹ ٹیموں میں سے ایک ہوگا۔

لیکن یہ بات طے ہے کہ بابر اعظم کو فیصلہ کرنے کی صلاحیت بہتر بنانا ہوگی۔ ہم انھیں مختلف فارمیٹس میں نازک ترین مواقع پر جدوجہد کرتے دیکھ چکے ہیں۔ انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں اُن کے دماغ کی بتی بجھی ہو یا پاکستان سپر لیگ میں ان کی قیادت میں کھیلنے والی ٹیموں کی ناقص ترین پرفارمنس، اب بابر کے لیے غلطی کی گنجائش کوئی نہیں۔ اپنی قسمت کے بل بوتے پر ہو سکتا ہے وہ ورلڈ کپ کے لیے کپتان بھی بنا لیے جائیں، لیکن یہ بابر اعظم کے لیے آخری موقع ہوگا کیونکہ ورلڈ کپ کی ہار تو بڑے بڑے کھلاڑیوں کی کپتانی ختم کر دیتی ہے، یہ تو پھر بابر ہیں۔

شیئر

جواب لکھیں