یہ کیا ہے؟ کٹ سفید لیکن وکٹیں رنگین؟ کیوں بھئی؟  ارے! یہ کرکٹ تک بھی پہنچ گئے؟

آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان چل رہی ہے دی ایشیز۔ دنیا کی سب سے پرانی کرکٹ rivalry کے زبردست میچز چل رہے ہیں۔ پہلے دونوں ٹیسٹ آسٹریلیا نے جیتے، پھر تیسرا میچ ہوا ہیڈنگلی میں۔ جہاں انگلینڈ نے کمال ہی کر دیا، صرف تین وکٹوں سے کامیابی حاصل کی اور یوں سیریز میں اپنے چانس زندہ رکھے ہیں۔

لیکن آج ہمارا موضوع کرکٹ نہیں، اصل میں اس میچ میں ہم نے کچھ نیا دیکھا۔ اسٹمپس پر قوسِ قزح کے رنگوں کی یہ پٹی نظر آئی اور ان رنگوں نے اس میچ کا مزا ہی خراب کر دیا۔

Raftar Bharne Do

جی ہاں! LGBT اب کرکٹ میں ایشیز تک بھی پہنچ گیا ہے۔ یہ inclusion اور diversity کے نام پر مہم ہے غلیظ جنسی رجحانات پھیلانے کی۔

اسپورٹس کون دیکھتا ہے؟ زیادہ تر بچے اور نوجوان۔ یعنی ٹارگٹ ہماری نئی نسل ہے، جس کے لیے کرکٹ کو بطور پروپیگنڈا ٹول استعمال کیا جا رہا ہے۔ بہت افسوس کی بات ہے۔

بات صرف شناخت کی ہوتی نا؟ تو اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا، لیکن LGBT ایجنڈا اس سے کہیں بڑا ہے۔ اس کا ڈائریکٹ impact پڑے گا انسانوں پر، اُن کی آنے والی نسلوں پر۔ یہ diversity کا نہیں بنی نوع انسان کی بقا کا مسئلہ ہے۔  لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی بندھ جائے، انھیں پھر کچھ نہیں نظر نہیں آتا۔

آج کارپوریٹ ورلڈ ہو یا کرکٹ گراؤنڈز، ہر جگہ زبردستی قوس قزح کے رنگ ڈالے جا رہے ہیں۔ کہیں celebrities کو استعمال کیا جا رہا ہے تو کہیں ہم جنس پرستوں کو بڑے بڑے عہدے دیے جا رہے ہیں۔ موویز تو چھوڑیں اب تو بچوں کے لیے بننے والی ڈزنی اور pixar کی فلمیں بھی اس گند سے پاک نہیں۔ تو اسپورٹس جیسا پاور فل ٹول کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟ جدید سامراج اس کا بھی خوب استعمال کر رہا ہے۔ پہلے ڈھکا چھپا کیا، پھر آہستہ آہستہ اور اب کھلے عام۔

کرکٹ میں دیکھیں تو انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ 2017 سے LGBT پروپیگنڈے کا حصہ ہے۔ پہلے ٹی ٹوئنٹی بلاسٹ میں ایسا کیا، پھر ہم نے دی ہنڈریڈ میں دیکھا اور 2022 میں جنوبی افریقہ کے خلاف ایک ٹیسٹ میں پہلی بار رنگین اسٹمپس کا استعمال کیا۔ اور اب بات پہنچ گئی ہے ایشیز تک۔

اور انگلینڈ اکیلا نہیں، آسٹریلیا میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ‏2019 اور 2020 میں سڈنی سکسرز نے پرائیڈ پارٹی میچ کھیلا۔ کھلاڑیوں نے pins لگائیں، جوتوں پر رنگین تسمے باندھے۔ پھر 2022 میں ویمنز بگ بیش لیگ میں ایک پرائیڈ میچ بھی کھیلا گیا۔

Raftar Bharne Do

سوال پیدا ہوتا ہے آخر ہمدردی صرف ہم جنس پرستوں سے کیوں؟ زیادہ دُور نہیں جاتے، یہی دیکھ لیں کہ کچھ دن پہلے کیا ہوا؟ یہی ایشیز تھی، لارڈز میں دوسرا ٹیسٹ چل رہا تھا۔ پہلے اچانک ایک ماحولیاتی گروپ "Just Stop Oil" کے کارکن میدان میں داخل ہو گئے۔ انھیں جس بے دردی سے پکڑا گیا، میدان سے نکالا گیا، وہ آپ نے، ہم نے، سب نے دیکھا۔ ایک بندہ تو انگلش پلیئر جونی بیئرسٹو کے ہتھے چڑھ گیا، اسے اٹھا کر میدان سے باہر لے گئے، سب نے خوب تالیاں بجائیں۔

Raftar Bharne Do

وہ مسئلہ، جو پوری دنیا کا حقیقی مسئلہ ہے، یعنی ماحولیات، اسے اجاگر کرنے والوں کے لیے گرفتاری، لیکن LGBT کو باضابطہ طور پر تھوپا جا رہا ہے۔

یہ محض ایک جنسی رجحان نہیں، اس وقت LGBT مکمل طور پر ایک سیاسی مہم بنی ہوئی ہے۔ ہم جنس پرست دنیا میں جہاں ہیں، ایک خاص نظریے کے پیچھے ہیں۔ ہر مذہب ہم جنس پرستی کے خلاف ہے، اس لیے یہ مذہب ہی کے خلاف ہیں۔ ایسے لوگ امریکا میں ہوں گے تو ری پبلکن پارٹی کو کبھی سپورٹ نہیں کریں گے اور پاکستان میں ہوں گے تو۔۔۔۔۔ خیر، رہنے دیں۔

کہنا بس اتنا چاہ رہے ہیں کہ جب کرکٹ میں سیاسی پیغام پر پابندی ہے تو inclusion کے نام پر صرف LGBT ایجنڈا کیوں؟

جہاں ماحولیاتی مسائل اجاگر کرنے کی اجازت نہیں تو مظلوم کے حق میں آواز اٹھانے کی بھی نہیں۔ ‏2014 میں ایک ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کے معین علی نے ایک بینڈ پہنا ہوا تھا۔ جس پر لکھا توا Save Gaza, Free Palestine۔ کسی اور نے نہیں، آئی سی سی کے میچ ریفری نے اُن سے یہ بینڈ اتروا لیا تھا اور کہا دوبارہ ایسا کوئی سیاسی پیغام نہ دیں۔

یہ سیاسی پیغام ہے؟ مظلوم کی حمایت کرنا، ظالم کے خلاف آواز اٹھانا، یہ سیاست ہے؟

کرکٹ سے تو فٹ بال کہیں بہتر ہے۔ ورلڈ کپ 2022 سے پہلے سات یورپی ٹیموں نے اعلان کیا تھا کہ وہ ہم جنس پرستی کے حق میں آواز اٹھائیں گی اور One Love Armband پہن کر میدان میں اتریں گی، لیکن فیفا نے اس پر پابندی لگا دی۔

بڑا ہنگامہ ہوا، جس پر فیفا کے صدر Gianni Infantino نے کیا شاندار بیان دیا۔ کہا "یورپ پچھلے تین ہزار سالوں سے جو کچھ کرتا آیا ہے، اس پر ہمیں اگلے تین ہزار سال تک معافی مانگنی چاہیے، پھر کسی کو اخلاقیات کا سبق پڑھانے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔"

یہی نہیں، فیفا نے ویمنز ورلڈ کپ 2023 میں بھی یہ بینڈ پہننے پر پابندی لگا دی ہے اور یہ ورلڈ کپ کوئی قطر میں نہیں، نہ ہی دوسرے کسی مسلم ملک میں ہے۔ یہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہو رہا ہے۔

ایک منٹ کے لیے سوچیے آئی سی سی کا چیف ایگزیکٹو کوئی ایسی بات کرے، یا کوئی قدم اٹھائے۔ ہمیں تو پتہ ہی نہیں کہ ہے آئی سی سی کا چیف ایگزیکٹو ہے کون؟ اور وہ کرتا کیا ہے؟ ایک ایسا ادارہ جو سوتا ہی رہتا ہے، جو پاک-انڈیا میچ جیسا چھوٹا کام نہ کروا سکے، اسے تو واقعی سوتے رہنا چاہیے۔

شیئر

جواب لکھیں