زیادہ دن نہیں گزرے، چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ نجم سیٹھی مستقبل کی خبریں دے رہے تھے۔ ایشیا کپ کے لیے پاکستان کا تجویز کردہ ہائبرڈ ماڈل منظور ہونے پر ان کی خوشی دیدنی تھی لیکن اندازہ نہیں تھا کہ محض چند دن بعد وہ اپنے عہدے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ افواہیں کئی دنوں سے چل رہی تھیں، بالآخر ان کی تصدیق بھی خود نجم سیٹھی نے کر دی ، ایک ٹوئٹ کے ذریعے:

رات گئے کیے گئے اس ٹوئٹ میں نجم سیٹھی نے کہا کہ وہ آصف زرداری اور شہباز شریف کے درمیان اختلاف کا سبب نہیں بننا چاہتے۔ عدم استحکام اور غیر یقینی کیفیت پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے اچھی نہیں۔ ان حالات میں میں پی سی بی کی چیئرمین شپ کا امیدوار نہیں ہوں۔

یہ صورت حال کیسے پیدا ہوئی؟ معاملہ ذرا سیاسی نوعیت کا ہے۔ اصل میں نجم سیٹھی شہباز شریف کا انتخاب ہیں اور عام طور پر چیئرمین وہی بنتا ہے، جو وزیر اعظم کا انتخاب ہو۔ لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کہتی ہے کہ کھیل کا شعبہ اُن کی وزارت کے ماتحت آتا ہے، اس لیے چیئرمین کرکٹ بورڈ بنانے کا اختیار بھی انھی کو ملنا چاہیے۔ یہ معاملہ اس قدر بڑھ گیا کہ بالآخر نجم سیٹھی کے دستبردار ہونے تک پہنچ گیا۔

پیپلز پارٹی اپنے پرانے بندے ذکا اشرف کے چیئرمین بنانا چاہتی ہے، جو ماضی میں بھی اس عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ بلکہ نجم سیٹھی اور ذکا اشرف کے درمیان تو کافی عرصہ کھینچا تانی بھی ہوئی ہے۔ ‏2013-14 میں معاملہ عدالت تک پہنچ گیا تھا، بالآخر اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے ذکا اشرف کو باہر کیا اور نجم سیٹھی کو چیئرمین پی سی بی بنایا۔

بہرحال، اب پی سی بی کے الیکشن محض خانہ پُری رہ گئے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کا 10 رکنی بورڈ آف گورنر فیصلہ کرے گا اور ذکا اشرف کا ایک مرتبہ پھر چیئرمین بن جائیں گے۔ یعنی 9 سال بعد بورڈ میں واپسی آئے گی۔

ویسے اس پورے معاملے نے ملک کی سیاسی صورت حال میں تبدیلی کی جانب اشارہ ضرور کر دیا ہے۔ قومی انتخابات قریب آتے آتے حکمران جماعتوں کے اتحاد میں بھی دراڑیں نظر آ رہی ہیں۔ اسے "نورا کشتی" کہہ لیں یا "میوزیکل چیئرز" کا کھیل، لیکن نظر آ رہا ہے کہ حالات پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے سازگار ہو رہے ہیں۔  

شیئر

جواب لکھیں