لارڈز ٹیسٹ ختم ہوئے کئی دن ہو چکے ہیں، لیکن بین اسٹوکس کی وہ اننگز اب بھی ذہن پر چھائی ہوئی ہے۔ 214 گیندوں پر 9 چوکے اور اتنے ہی زبردست چھکے، لیکن اسٹوکس کی 155 رنز کی شاہکار اننگز بھی انگلینڈ کو جتوا نہیں پائی۔ ہاں! اس باری نے ایسی اننگز میں نیا اضافہ ضرور کر دیا ہے جو انفرادی طور پر تو کمال تھیں، لیکن ٹیم کو فائدہ  نہیں پہنچا سکیں۔ آئیے آج آپ کو ایسی چند اننگز کے بارے میں بتاتے ہیں جو بہترین تھیں، بس فاتحانہ ثابت نہیں ہو پائیں۔

سچن تنڈولکر: 136 رنز، بمقابلہ پاکستان، چنئی ٹیسٹ 1999

Raftar Bharne Do

یہ بلاشبہ پاکستان اور بھارت کی تاریخ کے بہترین کرکٹ میچز میں سے ایک ہے۔ انڈیا کو بنانے تھے 270 رنز اور صرف 82 رنز پر اُس کے پانچ کھلاڑی آؤٹ ہو گئے۔ لگ رہا تھا پاکستان آسانی سے جیت جائے گا لیکن جب تک سچن کریز پر موجود ہوں، ایسا ہو نہیں سکتا تھا۔ تنڈولکر چھٹی وکٹ پر اسکور کو 254 تک لے گئے، بھارت فتح سے صرف 17 رنز دُور تھا، جب ثقلین مشتاق کی ایک گیند نے سب کچھ بدل دیا۔ سچن "ثقی" کی ایک "دوسرا" سمجھ نہیں پائے اور وکٹ دے گئے۔ پھر صرف چار رنز کے اضافے سے آخری چار وکٹیں حاصل کر کے پاکستان نے میچ جیت لیا، صرف اور صرف 12 رنز سے۔ سچن کی 273 گیندوں پر 136 رنز کی اننگز بھارت کو جتوا نہیں پائی۔

سنیل گاوسکر: 96 رنز، بمقابلہ پاکستان، بنگلور ٹیسٹ 1987

Raftar Bharne Do

چنئی ٹیسٹ سے پہلے پاک-بھارت تاریخ کا بہترین میچ سمجھا جاتا تھا بنگلور ٹیسٹ 1987 کو۔ یہ سیریز کا پانچواں اور آخری ٹیسٹ تھا، پہلے چاروں ٹیسٹ میچز ڈرا ہوئے تھے اور پھر بنگلور میں فیصلہ کُن مقابلہ ہوا۔ یہ بھارت کے عظیم بیٹسمین سنیل گاوسکر کا آخری ٹیسٹ تھا اور انھوں نے اس میچ میں بھی خود کو ثابت کر دکھایا۔ پاکستان کی تباہ کن بالنگ کے سامنے گاوسکر نے دوسری اننگز میں 96 رنز کی باری کھیلی جو بھارت کو جیت کے بہت قریب لے گئی۔ جب دوسرے اینڈ سے 7 وکٹیں گر چکی تھیں تب گاوسکر اکیلے ڈٹے ہوئے تھے۔ وہ اپنی آخری ٹیسٹ اننگز میں بھی سنچری کے بہت قریب تھے کہ صرف چار رنز پہلے اقبال قاسم نے انھیں آؤٹ کر دیا۔ پاکستان یہ میچ صرف 16 رنز سے جیتا۔

نیتھن آسٹل: 222 رنز، بمقابلہ انگلینڈ، کرائسٹ چرچ ٹیسٹ 2002

Raftar Bharne Do

اُف! کیا اننگز تھی یہ! آج بھی تاریخ کی تیز ترین ڈبل سنچری ہے۔ نیوزی لینڈ تعاقب کر رہا تھا 550 رنز کا، یعنی ویسے ہی بہت مشکل تھا لیکن 252 رنز پر سات آؤٹ ہونے کے بعد تو ناممکن ہو چکا تھا۔ تب نیتھن آسٹل نے ایک زخمی شیر کی طرح انگلینڈ پر حملہ کیا۔ انھوں نے صرف 168 گیندوں پر 28 چوکوں اور 11 چھکوں کی مدد سے 222 رنز بنائے۔ یہ کیسی طوفانی اننگز تھی، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ آسٹل نے سنچری کے بعد اگلے 100 رنز صرف 39 گیندوں پر بنائے تھے۔ نیوزی لینڈ کی جب صرف ایک وکٹ بچی تھی تو اسے 200 سے زیادہ رنز درکار تھے، لیکن آسٹل کی وجہ سے وہ ہارا صرف 98 رنز سے۔ اُن دن آسٹل نے اس مصرع کا مطلب سمجھا دیا

میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں

ویراٹ کوہلی: 141 رنز، بمقابلہ آسٹریلیا، ایڈیلیڈ ٹیسٹ 2014

Raftar Bharne Do

دسمبر 2014 میں ہم نے دیکھا کوہلی کا جوہلی، آسٹریلیا کے خلاف آسٹریلیا میں 115 اور 141 رنز کی اننگز۔ یہ میچ کوہلی کا تھا، بس بھارت کا نہیں ہو سکا۔ ٹیم انڈیا 364 رنز کا تعاقب کر رہی تھی، جب صرف 57 رنز پر دو وکٹیں گر گئیں اور میدان میں آئے کنگ کوہلی۔ انھوں نے مرلی وجے کے ساتھ اسکور کو 242 رنز تک پہنچایا۔ بد قسمت مرلی 99 پر آؤٹ ہوئے اور کوہلی کی سر توڑ کوشش کے باوجود بھارت میچ میں واپس نہ آ سکا۔ کوہلی اکیلے لڑے، لڑتے رہے، 175 گیندوں پر 141 رنز بنا ڈالے، وہ بھی ایسی وکٹ پر جہاں اسپنر نیتھن لائن نے اننگز میں 7 وکٹیں لی تھیں۔ بھارت 315 رنز پر پہنچا اور پھر کوہلی ہمت ہار گئے اور پھر انڈیا صرف 48 رنز سے ہار گیا۔ میچ آسٹریلیا نے جیتا اور دل کوہلی نے۔

بین اسٹوکس: 155 رنز، بمقابلہ آسٹریلیا، لارڈز ٹیسٹ2023

Raftar Bharne Do

اور اب ہم نے دیکھی بین اسٹوکس کی طوفانی اننگز۔ انگلینڈ 371 رنز کے بہت ہی مشکل ہدف کا تعاقب کر رہا تھا۔ لارڈز کی وکٹ پر ٹیم کے آسٹریلیا کی خطرناک بالنگ کا سامنا تھا اور پھر صرف 45 رنز پر چار آؤٹ ہو گئے اور اسٹوکس میدان میں آئے۔ پھر جب تک وہ کریز پر رہے، لارڈز کے تماشائیوں کا حوصلہ بڑھتا رہا۔ 9 چوکے اور اتنے ہی چھکے لگائے اور 155 رنز تک پہنچ گیا۔ انگلینڈ کو 300 کا ہندسہ بھی عبور کروا دیا، لگ رہا تھا معجزہ ہو جائے گا لیکن جوش ہیزل ووڈ نے بین اسٹوکس کو آؤٹ کر دیا۔ ارمانوں پر اوس پڑ گئی اور کچھ ہی دیر میں میچ کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ میچ تو بلاشبہ یادگار تھا، لیکن اسٹوکس کی یہ اننگز اُس سے بھی زیادہ یاد کی جائے گی۔

شیئر

جواب لکھیں